لائبریریاں اور دور جدید کے تقاضے۔

از شیخ محمد ارشد – ڈائریکٹر جنرل، ڈیپارٹمنٹ آف لائبریریز ،اسلام آباد .
زمانہ تیزی سے بدل رہا ہےجدید ٹیکنالوجی نے ہر طبقہ زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہےانفارمیشن ٹیکنالوجی ، مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹلائیزیشن نے جہاں زندگی کو سہل بنایا ہے وہیں کتابوں، مطالعہ اور لائبریریوں جیسے علمی ذرائع پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا لائبریریاں آج کے ڈیجیٹل اور مشینری دور میں بھی افادیت کر پاتی ہیں یا انہوں نےخود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر لیا ہے ۔
2۔ جب ہم لائبریری کاتصور کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں خاموشی سے بھری ہوئی ایک ایسی جگہ جہاں علم کا سمندرکاغذی صورت میں موجود ہوتا ہے اور مطالعہ میں مشغول افراد علم کی تلاش میں سرگرداں نظرآتے ہیں تاریخ کامطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عظیم تہذیبوں کی بنیاد علم پر رکھی گئ تھی۔ بغداد کی بیت الحکمت لائبریری، قرطبہ ، قاہرہ اورثمرقند کی لائبریریاں آج بھی علمی دنیا کی پہچان ہیں ۔ ماضی میں لائبریریاں وہ مراکز تھیں جہاں علوم و فنون، فلسفہ، طب، فلکیات اور ریاضی جیسے مضامین پر تحقیق کی جاتی تھی۔ ان مراکز نے جدیدسائنسی ترقی کی بنیاد رکھی اور مغرب کو علمی ورثہ منتقل کیا۔
3۔آج کا دور انفارمیشن ٹیکنالوجی، انٹر نیٹ اور ڈیجیٹلائیزیشن کا ہے جہاں ایک کلک پر دنیا بھر کی معلومات دستیاب ہیں۔ آج کی لائبریری وہ نہیں جو صرف کتابوں کی الماریوں پر مشتمل ہو بلکہ جدید لائبریریاں اب مطالعہ کے ساتھ ساتھ تحقیق کے لے ڈیجیٹل مواد فراہم کرتی ہیں ۔آن لائن کیٹلاگ ،ای بکس، ڈیجیٹل میگزین اور دوسرے ڈیٹا بیسز نے مطالعہ کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ بدقسمتی سے آج کی نوجوان نسل کتاب سے دور اور سکرین کے قریب ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا، گیمنگ اور ویڈیوزنےتوجہ کو منتشر کر دیاہے ان نوجوانوں کے لئے لائبریریوں کوپرکشش بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
اگر لائبریریوں کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے تو یہ نوجوانوں کے لئے محض مطالعہ کا نہیں بلکہ سیکھنے سکھانے اور تحقیق کرنے اور خود کو بہتر بنانے کا پلیٹ فارم بن سکتی ہیں ۔
4۔ہمارے ملک میں مجموعی طور پر لائبریریوں کو وہ اہمیت نہیں دی جارہی جو ترقی یافتہ ممالک میں دی جاتی ہے سکول ،کالج ،یونیورسٹی اور لائبریریوں کا بجٹ محدود ہو تا ہے جسکی وجہ سے قارئین کی ضروریات کو کماحقہ پورا نہیں کرپاتیں اوربہت سی لائبریریوں میں انٹرنیٹ ، ڈیجیٹل سہولیات اور آرام دہ ماحول کے ساتھ تربیت یافتہ ماہر عملہ بھی موجود نہیں ہے جسکی وجہ سے قارئین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
5۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئےکہ لائبریری محض علم کاذخیرہ نہیں بلکہ معاشرتی ادارہ بھی ہے یہ وہ جگہ جہاں پر عمر کےہرطبقےاور پس منظر کے لوگ ایک ہی مقصد یعنی علم کی تلاش کیلئے آتے ہیں ۔ لائبریریاں معاشرے میں رواداری تحمل اور علم دوست کلچر کو فروغ دیتی ہیں یہ ذہنوں کو کشاد گی ،تحقیق ،جستجو اور مختلف خیالات کو سمجھنے کا موقع دیتی ہیں ۔
6۔دور جدید میں لائبریری کی کئی جہتیں بن چکی ہیں ۔ اب لائبریریاں کمیونٹی سنٹر کا کردار ادا کررہی ہیں جہاں پر ورکشاپس، لیکچر اور گروہی پروگراموں کا انعقاد کیا جا تا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان میں آن لائن کورسز اور تحقیقی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جاتا ہے ۔ دور جدید کی لائبریریاں ڈیجیٹل ریسورسز کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی بیداری اور گرین انیشیٹیوز پر خصوصی سمینارز اور مہمات کا اہتمام کر رہی ہیں ۔ تعلیمی اداروں سے منسلک لاائبریریاں نہ صرف نصابی مواد فراہم کرتی ہیں بلکہ طلباء میں تنقیدی سوچ اور مطالعہ کی عادت ڈالتی ہیں ۔ان پر خصوصی توجہ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔قوموں کی ترقی اور فکری شعور کی بیداری میں لائبریریوں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہےیہ نہ صرف علم کی فراہمی کا ایک ذریعہ ہیں بلکہ ایک پلیٹ فارم بھی ہیں جہاں مختلف خیالات اور نقطہ ہائے نظرکو سیکھنے سمجھنے کا موقع ملتاہے۔
7۔لائبریری کا تصور صرف ماضی کی بات نہیں بلکہ مستقبل کی ضمانت ہے ہمیں نہ صرف اس ورثہ کو سنبھالنا ہے بلکہ اسے ترقی دے کر نئی نسلوں کو منتقل بھی کرنا ہے اس کیلئے معاشرے کے تمام طبقات، تعلیمی ادارے ، والدین ،نوجوانوں اور لائبریری پروفیشنلزکو مشترکہ کوششیں کرناہونگی۔