سیاست پر تماش بینوں کا قبضہ
صفدر علی خاں
پاکستان کے حالات پر نظر ڈالیں تو اسکی معیشت کی زبوں حالی پر اب تک سبھی سٹیک ہولڈر نوحہ کناں ہیں مگر اسے بہتر بنانے کی خاطر آگے بڑھ کر قربانی دینے والا کوئی نہیں ،سیاستدانوں کی طرف دیکھیں تو75برسوں بعد بھی بنیادی خرابی دور نہیں ہوسکی ،سیاستدان قومی معاملات پر کبھی ایک صفحے پر نہ آسکے ،اقتدار کی خاطر بڑھنے والے اختلافات میں مسلسل تنائو بڑھتا چلاگیا ،سیاسی بصیرت نام کی کوئی شے عملی طور پر کسی نے اختیار کی نہ اسکاانکے عمل سےاظہارہوسکا ،سیاستدانوں کی لڑائیوں نے ملک کو دولخت کرکے رکھ دیا اور اب تک کسی کو اس کا ملال تک نہیں ،سانحہ مشرقی پاکستان سے ہی سبق سیکھ لیا ہوتا تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی ،کسی بھی مرحلے پر سیاست دان ملکی مفاد میں ایک جگہ بیٹھنے پر راضی نہ ہوئے جس کے نتیجے میں حالات مسلسل بگڑتے چلے گئے ،قومی مفاد میں قربانیاں دینے کے دعوے تو سبھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر انکے عمل میں قومی یکجہتی کا اظہار عنقا ،
ملک پر آنے والی ہر افتاد اور ہر خرابی پر سیاستدان ایک دوسرے کو ہی مورد الزام ٹھہرا کر اپنی پاک دامنی کا اعلان کرتے نہیں تھکتے ،عجیب المیہ ہے کہ کوئی بھی اپنی کسی کوتاہی یاغلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کسی بھی مرحلے پر قوم سے معافی مانگنے پر آمادہ نہیں ہوسکا ،قائد اعظم محمّد علی جناح سمیت پاکستان کے حقیقی خیرخواہوں اور سچے حب الوطنوں کیساتھ اشرافیہ کے ناروا سلوک کی کہانیاں زبان زدعام وخاص ہیں،سیاسی شعبدہ بازی سے عوام کو گمراہ کرکے ملک میں افراتفری پھیلانے والوں نے جمہوریت کی شکل بگاڑ کر رکھ دی ہے ،ملک کے حالیہ سنگین اقتصادی بحران پر بھی سیاستدان اپنی ساکھ کے لئے ہی مل بیٹھ کر سوچتے مگر ان کے اختلافات کی طوالت رکنے کا نام نہیں لے رہی،پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی بحران ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ملک کا سیاسی نظام بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں اور دہشت گردی کے خطرات کا بھی سامنا ہے ،کئی بار لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کے اصل مسائل کی جانب مقتدر قوتوں نے سنجیدگی سے کبھی توجہ دی ہی نہیں جس کے سبب ملک میں وسائل کی لوٹ مار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور ملک کے ہر شعبے کا نظم ونسق درہم برہم ہوتا چلاگیا ،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے ملک میں طبقاتی نظام کی خرابیوں میں ہوشربا اضافہ سامنے آیا ،معاشی بدنظمی کا سیل بیکراں ترقی کے راستے مسدود کرتا چلاگیا ، یہی ہماری بربادی کی حقیقی کہانی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہم آج اس نازک موڑ پر بھی ذاتی مفادات کے لئے قومی اقدار کی دھجیاں اڑانے سے باز نہیں آرہے ،معاشی بدنظمی کے نتیجے میں اخلاقی دیوالیہ بھی نکل چکا ہے ،پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا پر سیاسی رہنمائوں کے ایک دوسرے پر حالیہ الزامات کے تناظر میں ہماری اخلاقی گراوٹ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس وقت سنگین معاشی بحران نے غریبوں سے تو جیسے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا ہے ،غربت اور بے روزگاری کے اضافے سے حالات دگرگوں ہورہے ہیں ۔معاشی بحران پر اگرچہ سیاستدان ایک دوسرے کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی مشق سخن جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ انکے ساتھ اس بربادی میں کچھ اور پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں ۔تاریخ کے اس سنگین ترین اقتصادی بحران کی ذمہ داری کسی ایک سیاسی جماعت پربھی نہیں ڈالی جا سکتی۔پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں سیاسی جماعتوں ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی، سب کا مشترکہ ہاتھ ہے۔یہ بات سچ ہے کہ اگرعدالتیں نظریہ ضرورت سے بالاتر ہوتیں اور اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرتی تو ملک کی معیشت کا یہ حال نہ ہوتا ۔ملک کے اس حالیہ معاشی بحران کا سب سے زیادہ ذمہ دار طبقہ طاقتور اشرافیہ ہے جس نے غلط پالیسیاں بنا کر، کرپشن کرکے، ناجائز مراعات حاصل کرکے اورقرضے معاف کروا کر ملک کو بحران سے دوچار کیا اور پھر آئی ایم ایف کا بہانہ کرکے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔معاشی ماہرین کے اعداد شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملکی اشرافیہ کی جانب سے ملکی وسائل پر قبضہ سے حالات بگڑتے چلے گئے ،اس وقت اشرافیہ کی جانب سے سسکتی معیشت پر بوجھ ڈالنا سب سے بڑی دھونس ہے ۔عالمی معاشی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ اس وقت چار ہزار ارب کی مراعات لیے ہوئے ہے وہ اگر دو ہزار ارب کی مراعات چھوڑ بھی دے تو اس سے بھی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔مگر ایسا عملی طور پر ہوتا نظر نہیں آتا ،کیونکہ اس کھیل میں کئی سیاستدانوں کے مفادات وابستہ ہیں اور حالات کو جوں کا توں رکھنے کی روایت بھی دم توڑتی نظر نہیں آتی ،قومی بچت پالیسی میں بھی اشرافیہ کو محفوظ راستہ دیا جارہا ہے ،حالانکہ آج بھی بجٹ خسارہ درست کرنے کے لیے شاہانہ حکومتی اخراجات کم کرنے، کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔پاکستان کی بہترین بائیس فی صد زرعی زمین اس وقت ایک فی صد اشرافیہ کے پاس ہے جو کہ اس سے نو سو پچاس ارب روپے سالانہ کما کر صرف تین ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے۔ ” دوسری طرف گھی ، چائے اور ڈرنکس سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگا کر غریب لوگوں سے چار سو پچاس ارب روپے لے لیے جاتے ہیں۔ان حالات میں جب طاقتور اشرافیہ کے اخراجات کسی طور کم نہیں ہوسکتے تو پھر غیر ملکی قرضوں اور واجبات کی ادائیگی کس طرح ممکن ہوگی اور پاکستان پر ڈیفالٹ کرجانے کا خطرہ بھی تو ٹلنے والا نہیں ،ان حالات میں پاکستان کے کروڑوں عوام پر ہوشربا مہنگائی کا بوجھ انہیں زندہ درگور کرنے کی سمت لے جارہا ہے ،آئی ایم ایف کی شرائط پر حکومت پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کررہی ہے ،غریبوں پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈالنے کی تیاریاں ہورہی ہیں ،ملکی وسائل کے ضیاع کو روکنا کسی طور ممکن نہیں ،اس وقت بھی دو صوبوں کے ضمنی الیکشن پر اربوں روپے کا سرکاری خزانے پر بوجھ ڈالا گیا ہے اور کچھ مہینے بعد یا پھر اپوزیشن کے پرزور مطالبے پر جلد عام انتخابات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جس پر مزید اربوں روپے کے اخراجات ہونگے اس سے بڑی بدنظمی اور ہٹ دھرمی اور کیا ہوسکتی ہے ،یہ فضول خرچیاں سیاستدان ایک ساتھ مل بیٹھ کر مشترکہ طور پر قومی انتخابات کا راستہ نکال کر ختم بھی تو کرسکتے تھے مگر قومی مفاد کے نام پر الیکشن کی رٹ لگانے والے سیاستدانوں کی باہمی لڑائیاں قومی وسائل ضائع کرنے کا سبب بنتی رہیں گی ،ان حالات میں شہرہ آفاق صحافی اور شاعر شورش کاشمیری کا شعر ہی برمحل ہے ۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں۔