تنگ آمد بہ جنگ آمد
ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری میں کئی برسوں سے ہوشربا اضافے کی وجہ سے لوگ ہر طرح کی بنیادی سہولیات سے مسلسل محروم ہوتے جارہے ہیں ،بجلی کے بلز میں پے در پے اضافے پر پچھلے دنوں پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔
احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور نگران حکومت نے فوری ریلیف دینے کی خاطر ہنگامی اجلاس طلب کئے مگر ان سب اجلاسوں میں کوئی ریلیف دینے کا حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ۔عوام کو محض طفل تسلیاں دی گئیں ،عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا گیا ۔عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کے سبھی مروجہ طریقے اپنائے گئے ۔
عملی طور پر مہنگی بجلی پر ٹیکسوں کی مد میں ہوشربا اضافہ ایک اور ظلم ڈھایا گیا ،تاہم اس دوران نگران حکومت کی بے بسی پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بجلی کی چوری روکنے کے پلان کو تیز رفتاری سےآگے بڑھانے کے لیے نگران حکومت کا ساتھ دیا۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے دیگر شعبوں میں بھی تطہیر کا عمل شروع کیا ۔ملک میں سرمایہ کاری لانے کی خاطر بیرون ممالک دورے کئے اور کئی دوست ممالک کی جانب سے اربوں ڈالرز دینے کے وعدے پر بہتری کی نئی پیش بندھی ہوئی ہے ۔
اسکے برعکس سول حکومت ملکی معیشت کو “ڈی ٹریک” رکھنے پر عمل پیرا ہے ۔نگران حکومت نے بھی حسب روایت ماضی کی حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی ہر نااہلی اور ناکامی پر عالمی مالیاتی ادارے کیساتھ ہونے والے قرض معاہدے کو ذمے دار قرار دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
نگران حکومت بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے کو بڑی دلیری سے آئی ایم ایف کیساتھ قرض لینے کے معاہدے کی کڑی شرائط کا شاخسانہ قرار دے رہی ہے ۔
حالانکہ آئی ایم ایف کی جانب سے اس طرح کے کوئی مطالبے نہیں ،آئی ایم ایف ریونیو بڑھانے کیلئے ٹیکس نیٹ بڑھانے سمیت کئی دیگر معاشی اصلاحات کا مطالبہ کررہا ہے مگر نگران حکومت نے اشرافیہ کی ٹیکس چوری پکڑنے سمیت معاشی اصلاحات کے نفاذ کی بجائے براہ راست بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے ریونیو بڑھانے کا آسان طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔
اب پاکستان کے معاشی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو عام شہری اس وقت مہنگا پٹرول خریدنے کی طاقت سے محروم ہوگئے ہیں ,قبل ازیں بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے پر دلبرداشتہ لوگ خودکشیاں کرنے لگے تھے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ،ان حالات میں عام آدمی کی دسترس سے اب یہ دونوں سہولیات باہر ہوگئی ہیں ۔کچھ دن پہلےپیٹرول کی قیمت میں 26 روپے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 17 روپے سے زائد کا اضافہ کیا گیا ہے ۔
کبھی بجلی کے نرخوں میں تو کبھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ معمول بن چکا ہے لیکن ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ پہلے سے مفلوک الحال غریب عوام کیسے جان لیوا مہنگائی کو برداشت کریں گے۔
غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔عوام کو ریلیف دینے کی باتیں بھی صرف زبانی کلامی ہوتی ہیں ،سارے پیکیجز سرمایہ داروں اور حکمرانوں کو دیے جاتے ہیں۔بجلی کے بلز کااپنے قد اور وزن سے زیادہ بوجھ اٹھانے والے مفلوک الحال پاکستانیوں پر رات کو اچانک پٹرول بم گرا دیا جاتا ہے ۔
غربت ،بے روزگاری اورہوشربا مہنگائی کے سامنے پاکستانی عوام کی حالت ناقابل بیان ہے۔مہنگائی کی ریڈ لائن کراس ہوچکی ۔حکمران پٹرول اوربجلی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھیں گئے لہذا عوام نے جب تک حکومت کو یکجا ہوکر نہ روکا یہ مہنگائی میں اضافے کرنے سے باز نہیں آئیں گئے۔بقول شاعر
نہ اپنے جور سے وہ باز آرہا ہے ابھی
نہ ہم ہی اسکے ستم سہہ کے تنگ آتے ہیں
عوام اب تک حکومت کا ہر ظلم سہہ رہے ہیں ،پاکستان میں عام آدمی کا زندہ رہنا محال ہوگیا ہے ۔
احتجاج ،ہڑتالوں اور احتجاجی جلسوں کا سلسلہ بھی چلا لیکن سردست صد شکر کہ ریاست سے بغاوت کا رحجان نہیں دیکھا گیا لیکن جب کوئی خود کشی کرنے پر آمادہ یہ سوچ لے گا کہ “مر تو ویسے بھی جانا ہے کیوں نہ بجلی اور پٹرول مہنگا کرنے کے کچھ ذمے داروں کو بھی مار کر ہی مروں “تو پھریہاں سے انقلاب کا راستہ نکلے گا ۔
اس سے پہلے کہ ظلم کی انتہاؤں پر عوام کے اندر یہ سوچ پنپ جائے حکومت انکے ریلیف کی فوری طور پر کوئی صورت نکالے ورنہ “تنگ آمد بہ جنگ آمد “عوام کے غصے سے بچنا مقتدر اشرافیہ کے لئے محال ہوگا ۔