پاکستان بنانے والی مسلم لیگ کو گزشتہ 60 برسوں میں فوجی آمروں نے مختلف شکلوں میں ڈھالا اور اسے جیسے چاہا استعمال کیا ۔ مگر آج یہ کام ایک ادھوری جمہوریت کے دور میں انجام دیا جارہا ہے البتہ اس بار یہ کام انجام دینے والے ہاتھوں نے وردی نہیں دستانے پہن رکھے ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی تاریخ میں مسلم لیگ کے بعد اب ایک نئی جماعت تبدیلی شکل کے عمل سے گزر رہی ہے ۔ تاکہ ایک نئی کنگز پارٹی تشکیل دے کر مرضی کے نتائج حاصل کئے جاسکیں ۔ ویسے مسلم لیگ کے علاہ پیپلز پارٹی بھی اس تبدیلی شکل کے عمل کا شکار ہو چکی ہے اور اس کے اندر سے بھی کنگز پارٹی نکالی جا چکی ہے ۔ کسی پوری سیاسی جماعت کو ” اغوا ” کرنا آسان کام نہیں مگر پاکستان میں فنکار ہاتھوں نے اسے بار بار ممکن بنایا ہے ۔ پاکستان کے پہلے فوجی امر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے اس فنکاری کے کھیل کی ابتدا کی تھی ۔ انہوں نے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد مسلم لیگ کی ہچکولے کھاتی کشتی پر قبضہ کرنے کیلئے ایک ” اپنی ” مسلم لیگ بنا ڈالی ۔ جسے کنونشن مسلم لیگ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی دور میں ایک کونسل مسلم لیگ بھی تھی . کنونشن مسلم لیگ کے بزرگوں میں چودھری خلیق الزمان اور ذوالفقار علی بھٹو اہم ترین تھے ۔ جبکہ کونسل مسلم لیگ میں ممتاز دولتانہ ، خواجہ صفدر ، چودھری محمد حسین چٹھہ ، سردار ظفر اللہ ، خان عبدالقیوم خان جیسے لیڈر شامل تھے ۔ ایوب خان کی رخصتی کے ساتھ ہی کنونشن مسلم لیگ بھی قصہ پارینہ ہوگئی ۔ جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو پہلے اقتدار اور پھر دنیا سے رخصت کرنے کے بعد اپنے مارشل لا کو قانونی تحفظ دینے کیلئے الیکشن تو غیر جماعتی کروائے مگر پھر معاملات چلانے کیلئے پیر پگارا سے مدد مانگی اور پیر صاحب کے مرید محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا اور مسلم لیگ بھی بنا ڈالی ۔ یہ مسلم لیگ جونیجو کہلائی ۔ خواجہ صفدر ، چودھری ظہور الٰہی کے صاحب زادے چودھری شجاعت حسین بھتیجے چودھری پرویز الٰہی اور دیگر بڑے نام جنرل ضیا الحق کی اس مسلم لیگ کے بازو بنے ۔ مگر میدان لاہور کی صنعتکار فیملی کے نمائندے میاں نواز شریف نے مارا اور ضیا الحق کے جانشین بن کر ابھرے ۔ یہ مسلم لیگ جنرل ضیا الحق کے C130 طیارے کے حادثے میں رخصتی کے بعد بھی زندہ دہی ۔ البتہ اس مسلم لیگ کو نواز شریف کی مناسبت سے مسلم لیگ ن کا نام ملا ۔
مسلم لیگ کی اس کہانی کے چکر میں ہم اصل موضوع سے بھٹک گئے اور جنرل ضیا کے ہاتھوں پیپلڑ پارٹی کی تباہی اور “اغوا ” کی کہانی درمیان میں رہ گئی ۔
پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل ضیا الحق کو اندازہ ہوا کہ بھٹو ان کے اندازوں سے زیادہ ” ضدی ” شخص ہیں ” ہتھیار ” نہیں ڈالیں گے ۔اسی دور میں مشہور ہوا کہ قبر ایک ہے اور مردے دو ۔ ضیا الحق قبر میں اترنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ لہذا پی پی پی کے خاتمے کے لئے کام شروع ہوا پیپلز پارٹی کے اندر کمزوری مارشل لا لگتے ہی ظاہر ہوگئی تھی ۔ بنظیر بھٹو کے ” انکلز ” معافی مانگ کر پناہ طلب کر رہے تھے ۔ غلام مصطفیٰ جتوئی، غلام مصطفیٰ کھر، ممتاز بھٹو،کوثر نیازی، حنیف رامے ، عبدالحفیظ پیرزادہ ، ڈاکٹر مبشر حسن، ڈاکٹر غلام حسین جسے بڑے لیڈر پارٹی چھوڑ گئے ۔ مولانا کوثر نیازی نے ابتدا کی اور پروگریسیو پیپلز پارٹی بنا ڈالی ۔ غلام مصطفیٰ جتوئی نے نیشنل پیپلز پارٹی بنائی ۔ حنیف رامے نے مساوات پارٹی بنائی مگر جنرل ضیا الحق کا مقصد پورا نہیں ہوا اور پی پی پی کو ختم نہیں کیا جا سکا ۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے 1988 سے 1999 تک کا عرصہ باہنی جھگڑوں اور ایک دوسرے کی دو دو حکومتیں گھر بھیجنے میں گزارا ۔ مگر ماضی سے سبق نہ سیکھنے والوں کو ایک بار پھر سبق پڑھانے کیلئے فوج نے ڈنڈا اٹھایا اور جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت کو گھر بھیج کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ اس بار مسلم لیگ اور پی پی پی دونوں میں سے متبادل جماعتیں نکالی گئیں ۔ میاں نواز شریف سے ناراض میاں محمد اظہر ، چودھری شجاعت حسین ، چودھری پرویز الٰہی اور دیگر کو اکٹھا کرکے مسلم لیگ قائد اعظم بنائی گئی ۔ رائو سکندر ، فیصل صالح حیات اور آفتاب شیر پاؤ کے ذریعے پی پی پی پیٹریاٹ اور پی پی پی شیرپائو گروپ بناکر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پیپلز پارٹی کو کمزور بناڈالا گیا۔
جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد مسلم لیگ ق جس نے پنجاب میں حکومت بنائی تھی اس قدر کمزور ہوئی کہ 2018 میں 10 نشستوں تک محدود ہو گئی ۔ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بھولی بسری کہانی بن چکی جبکہ پی پی پی آفتاب شیر پاؤ اب قومی وطن پارٹی بن چکی ہے
جنرل مشرف کے اقتدار کے خاتمے آور فوج کی اعلی قیادت کی طرف سے سیاست سے دور رہنے کے اعلان کے بعد امید بندھی تھی کے اب سیاست ” مداخلت” سے پاک ہو جائے گی مگر ابھی ہماری زندگی میں مزید بہت کچھ دیکھنا باقی تھا ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں مارشل لا تو نہیں لگا مگر ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اج بھی جاری ہے ۔ تحریک انصاف کی قیادت یعنی عمران خان نے آئین و قانون سے جو امیدیں لگائی تھیں وہ سب پاش پاش ہوئیں اور ان کی پارٹی کو گھیر کر وہاں لیجایا گیا جہاں ان پر غداری کی تہمت لگادی گئی ہے ۔ ان کی پارٹی کی کشتی میں سوراخ کر دئیے گئے ہیں اور چوہے جان بچانے کیلئے چھلا نگیں لگا رہے ہیں ایسے منظر تو جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء میں بھی نہیں دیکھے تھے ۔ خوف کا یہ عالم 1999 میں بھی نہیں تھا ۔ آج جس طرح تحریک انصاف کو صرف عمران خان تک محدود کرنے یعنی ایک شخص تک محدود کرنے کی مہم جاری ہے وہ یقینا پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں پہلی بار دیکھ رہے ہیں ۔ آج جہانگیر خان ترین کو جنوبی پنجاب سونپا جا رہا ہے ۔ وسطی پنجاب میں بھی انہیں ” مقام ” دینے کی تیاریاں ہیں ۔ آصف زرداری اپنا ” شئیر ” لینے کیلئے مسلسل کوشاں ہیں ۔ پنجاب میں واپسی ان کا خواب ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ بلاول کو وزیر اعظم کی مسند پر نہیں بٹھا سکتے ہیں ۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے سندھ ھائوس کا جس طرح کامیاب استعمال کیا وہ ابھی لوگوں کو یاد ہے ۔ اب وہ لاہور کے اس بلاول ہائوس میں آبیٹھے ہیں جو ۔لک ریاض کی نسبت سے خاصا معروف ہے ان کا ٹارگٹ بھی وہی جنوبی پنجاب پے جس کیلئے جہانگیر ترین پہلے سے میدان میں ہیں ۔ جناب زرداری نے سابق گورنر مخدوم احمد محمود کے تعاون خاص سے خاصا کچھ یعنی ” الیکیببلز ” اکٹھے کئے ہیں مگر بہت بڑے نام ابھی ہاتھ نہیں آئے ہیں ۔ مگر سوال یہاں ایک ہے مسلم لیگ ن گھاٹے کا سودا کیوں کر رہی ہے ۔ کیا اس نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اگلا سیٹ اپ اس کیلئے نہیں سجایا جا رہا ہے ۔ تحریک انصاف سے بھاگنے والوں کے لیے ابھی تک جہانگیر ترین کی آغوش میں تحفظ دکھایا جا رہا ہے ۔ لیکن کیا ایک متبادل تحریک انصاف پی پی پی اور مسلم لیگ ن کو قابل قبول ہے ۔ انہوں نے میثاق جمہوریت اپنے لئے کیا تھا جس میں وفاق میں باری باری وفاقی حکومت اور سندھ اور پنجاب میں ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا یعنی مل کر کھائو تے رج کے کھائو ۔ عمران خان کو ماضی بنانے کی کوشش ہو رہی ہے مگر کیا کریں جدید دور نے سب مشکل کر ڈالا ہے ۔ موبائیل فونز عوام سے کیسے چھینے جائیں ایک ایسی مشکل ہے جس کا حل نہیں مل رہا ۔ اب تو یہی کہا جا سکتا ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ۔۔۔۔۔