مُرغِ باد نُما
مُرغِ باد نُما ایسے مرغ کو کہتے ہیں جو جس طرف ہوا چل رہی ہو اسی جانب اڑان بھرنے لگتا ہے ،مراد یہاں ایسے شخص کی ہے جو ہوا کو دیکھ کر رخ بدل لیتا ہے یعنی وقت اور حالات کے ساتھ بدل جاتا ہے ،مُرغِ باد نُما کی مثال اس لئے دی ہے کہ اس وقت ہماری سیاست ہرطرح سےمُرغِ باد نُما کے اصول پر کاربندنظرآتی ہے۔
مفادات کی لہریں سیاسی رہنمائوں کو اڑائے پھرتی ہیں ،اپوزیشن ہو یا حکومت تمام سیاسی رہنمائوں کا انداز مُرغِ باد نُما جیسا ہی ہے ،سیاست میں اصول اور ضابطوں کا دم تو سبھی بھرتے ہیں مگر ان کے سامنے جب اپنے وقتی مفادات حائل ہوتے ہیں تو پھر یوٹرن لینے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرتے۔
گزشتہ چار سال جو غلطیاں عمران خان نے تسلسل کیساتھ کیں اب وہی غلطیاں ن لیگ کی سربراہی میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت پےدرپےکررہی ہے ،یہ بات بھی طشت ازبام ہے کہ عمران خان کی حکومت کو “مہنگائی “نے ڈس لیا اور شہبازشریف نے اس سے بھی سبق نہیں سیکھا ،بلکہ لکیر کے فقیر بن کر آئی ایم ایف کی تمام کڑی شرائط پر رضامندی کا برملا اظہار کرتے ہوئے قوم کو مہنگائی کے سمندر میں پھینکنے کا اہتمام کردیا۔
اس پر وہی حالات جو پی ٹی آئی کی حکومت نے قوم کی ترقی کے نام پر بربادی کی صورت پیدا کئے تھے ان سے چھٹکارہ دلانے کی بجائے پیروی شروع کردی ،قوم کے دکھ کا مداوا کرنے کے دعوے تو بہت کرتے رہے مگر حقائق یہ ہیں کہ اس وقت ملک کے حالات بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہیں اس پر دہشگردی کی نئی لہر نے اسے مزید سنگین بنادیا ہے ،پشاور پولیس لائنز خود کش دھماکے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اس وقت وزیراعظم کی یہ بات قابل فکر ضرور ہے کہ سیاسی مخالفتیں بعد میں نبھالینا اب متحد ہوکر دہشگردوں کا مقابلہ کیا جائے اس بات کو عملی شکل دینے کی خاطرآل پارٹیز کانفرنس بلانے کی ضرورت ہے جس میں پاکستان کے “کورایشوز” پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جانا اب وقت کا تقاضا ہے ،جیسے پاک فوج کے کورکمانڈرز نے آرمی چیف سید عاصم منیر کی قیادت میں کورکمانڈرز کانفرس میں دہشگردوں کو کچلنے کا بروقت اعلان کیا ہےاسی طرح کم ازکم شہباز شریف نے سیاسی قیادت کو ہشگردوں کے خلاف متحد ہونے کی دعوت تو دی ہے ،عملی طور پر اس دعوے کو سچ کردکھانا اب تمام سیاستدانوں کی ذمے داری ہے۔
کیونکہ اب وقت ملکر دہشگردوں سے نمٹنے کا تقاضا کررہا ہے اور بقول شہباز شریف سیاسی لڑائیاں بعد میں بھی لڑی جاسکتی ہیں ،پاکستان کے جتنے بھی سیاستدان ہیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جس نے اپنے اصول اور منشور سے یوٹرن نہ لیا ہو ،سبھی نے وقت کے دھارے کے ساتھ اپنی ترجیحات بھی تبدیل کرنے کا مظاہرہ کیا ہے ،بوقت ضرورت دوست کو دشمن اور بدترین سیاسی دشمن کو جگری یار بنانے میں لمحہ بھر بھی تاخیر نہیں کی گئی۔
ان حالات میں دیکھا جائے تو سبھی سیاستدان اقتدار کی خاطر مُرغِ باد نُما کی صورت اختیار کرتے رہے ہیں اس وقت حالات تمام سیاستدانوں سے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کا تقاضاکررہے ہیں اور پاکستان کے ہر محب وطن کی خواہش بھی یہی ہے کہ ملک دشمنوں کے سامنے وطن کی حرمت پر جانیں نچھاور کرنے کے دعویدار ایک صفحے پر آکردہشگردوں کو للکاریں۔
جیسے پاک آرمی کے کورکمانڈرز کی کانفرنس میں دہشگردوں کے خلاف دو ٹوک موقف اختیار کیا گیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ سیاستدانوں نے قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے لئے کبھی یکجہتی کا حقیقی اظہار نہیں کیا اور بنیادی وجوہات میں یہ ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے دشمنوں کے حوصلے بلندہوئے ہیں ،سیاستدانوں کی سیاسی لڑائیاں صرف اقتدار کے حصول اور سیاسی مفادات تک محدود ہیں ان میں کہیں بھی قومی مفاد کا عمل دخل نظرنہیں آتا لیکن ستم ظریفی کی یہ انتہا ہے کہ سارے سیاستدان اپنے مفادات کی لڑائیوں کو قومی مفاد قرار دیتے نہیں تھکتے۔
اس وقت حالات سیاستدانوں کو اس موڑ پر لے آئے ہیں جہاں وہ قوم کے لئے یکجہتی کی اعلیٰ مثال بن کرنئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں جس کے لئے تمام سیاستدانوں کو اپنے سارے سیاسی تنازعات اور لڑائیاں ختم کرکے قومی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا ،قومی یکجہتی کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے ،کسی بھی ملک کی سالمیت اور بقاء اس کی قومی یکجہتی اور ہم آہنگی سے مشروط ہوتی ہے۔
قوم جتنی باشعور اور پُرعزم ہو گی ملک اتنا ہی مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔سیاسی مفادات کی خاطر کچھ سیاستدانوں نے غیروں کو خو ش کرنے کے لئے ملک و ملت کو بہت نقصان پہنچایا ہے اب یہ روایت دفن کرنا ہوگی ، دیکھنا ہوگا کہ اب قومی سلامتی ادارے کی طرح سیاستدان بھی قومی مفاد کے سامنے ہر چیز قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں یا پھر ماضی کی طرح فائدے کی طرف چلنے والی ہوا کا رخ دیکھ کر مُرغِ باد نُما بن جائیں گے ؟.