مآل گاڑی میں امانتیں

تحریر الطاف حسن قریشی
چیف ایڈیٹر اردو ڈائجسٹ
ہماری تاریخ بالعموم تلوار، تاج اور تخت کے گرد گھومتی رہی ہے اور بڑےبڑے نام، فتوحات، معاہدے اور اِنقلابات ہمارے حافظے کا حصّہ ہیں، جبکہ اصل تاریخ اکثر اُن گمنام کرداروں کے اردگرد پروان چڑھتی ہے جو زمین کی خاموش رگوں میں خون کی طرح رواںدواں رہتے ہیں۔ اُنہی خاموش کرداروں میں سے ایک نام چوہدری محمد اسمٰعیل کا ہے جنکی بےمثال قربانی، فرض شناسی اور دِیانتداری کو محمد حنیف بندھانی نے اپنی کتاب ’مال گاڑی میں امانتیں‘ میں زندۂ جاوید بنا دیا ہے۔ یہ کتاب اُس عظیم شخصیت کی سوانح سے کہیں زیادہ ہجرت، تعمیرِوطن اور قومی وقار کے مظاہر کی ایسی روح پرور دَاستان ہے جس سے آج کی نسل بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہ بظاہر ایک تاریخی اور سوانحی کتاب ہے، لیکن درحقیقت وہ قومی شعور اَور اِجتماعی حافظے کی بازیافت ہے۔ اِس میں مصنّف نے اپنے والدمحترم کے تجربات اور اِیثار کے حیرت انگیز واقعات اور مشاہدات کو صرف ذاتی خراجِ عقیدت کی صورت میں بیان نہیں کیا بلکہ اُنھیں پورے برِصغیر کی تاریخ، قیامِ پاکستان کے پس منظر اور ایک نئی مملکت کے ابتدائی عہد کے سماجی اور اِنتظامی سانچوں سے جوڑ دیا ہے۔
یہ تحریر اِس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ قاری کو اِبتدا ہی سے اِس حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے کہ وہ صرف ایک انسان کی کہانی پڑھنے کے بجائے ایک عظیم الشان دور کی روحانی اور اَخلاقی عظمت سے روشناس ہونے جا رہا ہے۔ ایسے ایک دور کی جیتی جاگتی کہانی، جب نقل مکانی ایک آزمائش، ہجرت ایک عقیدے اور اَمانتداری ایک جہاد کا درجہ رکھتی تھی۔ قیامِ پاکستان ایک سیاسی حقیقت کے ساتھ ساتھ ایک زبردست روحانی تجربہ بھی تھا۔ لاکھوں مسلمانوں نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی، جان و مال کی قربانی دی اور خون کے دریا عبور کیے۔ ’مال گاڑی میں امانتیں‘ اُس عظیم تجربے کا ایک لازوال مرقع ہے۔ تقسیمِ ہند کے دوران دہلی سے کراچی، لاہور اَور دِیگر شہروں تک سرکاری افسروں کی ذاتی اور سرکاری قیمتی اشیا کی محفوظ منتقلی قومی فریضہ اور سخت آزمائش بن گئی تھی۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ قیامِ پاکستان کے جاںگسل معرکے میں ہزاروں ایسے نامعلوم چہرے تھے جنہوں نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر قوم کے خوابوں کو ایک خوش آئند تعبیر فراہم کی۔ چوہدری محمد اسمٰعیل بھی اُن گمنام معماروں میں شامل تھے۔
چوہدری محمد اسمٰعیل کا کردار کتاب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ٹھیکےدار تھے، مگر اُن کی شخصیت میں ایمانداری، حب الوطنی، خدمتِ خلق اور فرض شناسی کی وہ صفات پائی جاتی تھیں جو آج کی دنیا میں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب نوزائیدہ رِیاست کسی قدر ناتجربےکاری، بدانتظامی اور لُوٹ مار کا شکار تھی، اُس وقت ایسی کامل شخصیتوں کا کردار سامنے آیا جنہوں نے کسی قسم کی سرکاری مراعات خاطر میں لائے بغیر ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ اِس تصنیف کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ مصنّف نے اپنے والد کی خدمات کے تذکرے کے ساتھ ساتھ اُس دور کی انسان دوستی، بین المذاہب احترام اور اَخلاقی اقدار کی روح پرور جھلک بھی دکھائی ہے۔ وائسرائےہند کی طرف سے ایک عام ملازم کی تیمارداری، دوا کی فراہمی اور مسلسل نگرانی محض ایک سادہ وَاقعہ نہیں، بلکہ اُس دور کی انسان دوستی کا ایک آئینہ ہے۔ اِسی طرح رام سرندر دَاس جیسے ہندو دَوست کا ذکر اِس حقیقت کی گواہی دیتا ہے کہ تقسیمِ ہند سے قبل برِصغیر میں مذہب سے بالا تر ہو کر اِنسانی رشتوں کو اَہمیت دی جاتی تھی۔ یہ وہ تہذیبی رویّہ تھا جو آج کی نفرت زدہ سیاست اور گہری سماجی تفریق کے دور میں ازحد ضروری ہے۔
مصنّف نے اپنی ماں، دادی، بہن اور دِیگر اہلِ خانہ کے حوالے سے جو واقعات بیان کیے ہیں، وہ قیامِ پاکستان کے وقت ہونیوالے خوںآشام فسادات کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ ہندو بلوائیوں کے ظلم کے پہاڑ توڑنا، مسلمانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کرنا، معصوم بچوں اور عورتوں کا خون بہانا اور انگریز افسران کا ایک حد تک غیرجانبدارانہ کردار اَدا کرنا، یہ سب کچھ مصنّف نے بڑی بےساختگی اور دِل چھو لینے والے انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنّف کی ماں کا ایثار جب وہ پناہ گزینوں میں کھانے پینے کی اشیا بانٹتی ہیں، اُن کے اعلیٰ انسانی جذبے کا مظہر ہے۔
محمد حنیف بندھانی کا اسلوب انتہائی سادہ، رواں اور مؤثر ہے۔ وہ قاری کے جذبات کو گرفت میں لینے کا فن جانتے ہیں۔ اُن کی تحریر میں ایک ایسی سچائی ہے، جو تصنع اور جذباتی مبالغہ آرائی سے پاک ہے۔ وہ تاریخ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، اِسے محسوس کروانے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔ ’مال گاڑی میں امانتیں‘ ایک دستاویزی شہادت ہے جو ہماری نئی نسلوں کے لیے ایک گراںقدر سرمایہ ہے۔ ہمارے نوجوان صرف سوشل میڈیا اور زبانی روایات کے ذریعے تاریخ سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ اِس اعتبار سے یہ کتاب مستقبل کی رہنمائی کا ایک معتبر وسیلہ ہے۔ وہ قومیں جو اَپنے خاموش ہیروز کو بھی یاد رکھتی ہیں، وہی تاریخ میں زندہ رہتی ہیں، لہٰذا یہ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ یہ بیش قیمت دستاویز نیشنل آرکائیوز میں محفوظ کر لی جائے۔ اِسکے علاوہ چوہدری محمد اسمٰعیل کو اُن کی عظیم الشان قومی خدمات پر اعلیٰ ترین قومی اعزاز سے نوازا جائے۔ اِس سے اُن درخشندہ رِوایات کو اِستحکام اور فروغ حاصل ہو گا کہ پاکستانی قوم اپنے محسنوں کی پوری قدر کرتی ہے۔
ہمارے خیال میں کتاب کے مصنّف جناب محمد حنیف بندھانی کی غیرمعمولی کاوش کو بھی قومی سطح پر سراہا جانا چاہیے کہ اُنہوں نے قیمتی دستاویزات کی اچھی طرح حفاظت بھی کی اور وُہ تمام واقعات بھی قلمبند کر دیے جو اُنہوں نے اپنے بچپن میں اپنے والدمحترم کے متعلق نہایت قریب سے دیکھے تھے۔ حنیف صاحب نے اپنے والدین کی تربیت سے جو کچھ سیکھا، اُسے اپنی زندگی کا قابلِ رشک حصّہ بنا لیا۔ علم سے گہرا لگاؤ، انسانوں کی عزت اور فلاحی کاموں میں فراخ دلانہ شرکت اُن کا ایک ایسا طرزِ حیات ہے جو ماحول میں تخلیقی عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اُنہیں اردو اَدب کے علاوہ انگریزی لٹریچر سے بھی گہری دلچسپی ہے۔ اُنہوں نے ایس ایم لا کالج کراچی سے ایل ایل بی کیا جسکے اساتذہ میں عالمی شہرت کے حامل جناب اے کے بروہی بھی شامل تھے۔ ’مال گاڑی میں امانتیں‘ کو منظرِعام پر لانے میں نامور کالم نگار جناب محمود شام نے بنیادی کردار اَدا کیا، وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔