کالم و مضامین/Articles

ہم کب بدلیں گے؟

کالم نگار: خالد غورغشتی

گرمی اپنا غضب ڈھا رہی تھی، سورج سوا نیزے پر تھا۔ ایسے میں ملک بھر میں بارشوں کی جگہ آندھی اور طوفان نے لے لی تھی، جس کے باعث ریت اور مٹی کی بارش برس رہی تھی۔

سوچا تھا کہ عیدِ قرباں آئے گی، لوگ قربانی کر کے گوشت صدقہ کریں گے تو شاید غضبِ الہیٰ کی آگ ٹھنڈی ہو جائے گی۔ لیکن افسوس، اکثریت نے قربانی کر کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں گوشت کی منصفانہ تقسیم کے بجائے ہڈیوں سمیت گوشت فریج میں انڈیل دیا، کیونکہ حضرت شیخ جی صاحب کا فرمان تھا کہ قربانی کا سارا گوشت خود بھی رکھ سکتے ہیں۔

جوں توں کر کے عیدِ قرباں گزری، ایسا محسوس ہونے لگا جیسے گرمی سے قیامت برپا ہو چکی ہو۔ زمین لاوا اُگل رہی ہو اور آسمان پھٹ چکا ہو۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔

یہ عجب خودی میں بدمست قوم ہے، جن کے نزدیک صرف اپنے پیٹ کی آگ بجھانا ضروری ہے۔ باقی لوگ بھوک پیاس سے مرتے ہیں تو انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اگر ساری کائنات گوشت کی بنا دی جائے تو یہ قوم دس دن میں سب کچھ کھا جائے۔ من و سلویٰ والے بھی اتنے لالچی نہ تھے جتنے یہ گوشت خور نکلے۔ ان کی اکثریت یہی محاورہ گنگناتے پائی گئی: “پیٹ وچ نہ پئیاں روٹیاں تے ساریاں گلاں کھوٹیاں۔”

چاہے یزید ہو، ہامان، شداد یا فرعون، اگر ان میں سے کوئی نیک کام کرتا تو وہ دنیا کا سب سے بہترین شخص قرار پاتا؛ اور اگر زمانے کا قطب بھی ان کے مطلب کا نہ ہوتا تو اسے دنیا کا بدترین شخص کہنے میں بھی شرم محسوس نہ کرتے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کے کندھوں پر بندوق چلاتے ہیں۔ جہاں سے جو کچھ مل جائے پیٹ بھر کر کھاتے ہیں اور پھر نئے شکار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک، سب غلامی کو نعمت اور آزادی کو زحمت سمجھتے ہیں۔

نہ خود کچھ کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کچھ کرنے دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ رکشوں کے پیچھے بھی لکھا ہوتا ہے: “جلنے والوں کا منہ کالا ہو۔”

ذہنی پسماندگی کا عالم یہ ہے کہ غیرت کے نام پر ماں، بہن، بیٹی کا قتل عام معمول بن چکا ہے۔ مرد کو ہر ظلم کی کھلی چھوٹ ہے۔ جب چاہے، جیسے چاہے، دوسروں کی ماؤں بہنوں کی عزتوں پر کیچڑ اچھالتا ہے، تعاقب کرتا ہے یا اپنی ہوس کا نشانہ بنا لیتا ہے۔

عقل کو معاشرے سے ناسور سمجھ کر نکال دیا گیا ہے۔ اس لیے جو رسومات باپ دادا سے چلی آ رہی ہیں، وہی نسل در نسل چلتی جا رہی ہیں۔ اتنے مدارس، سکول، کالج، یونیورسٹیاں، تبلیغی جماعتیں اور واعظین ہونے کے باوجود، ایک گاؤں یا خاندان سے نفرتیں اور فرسودہ رسمیں جڑ سے نہ اکھاڑی جا سکیں۔

عید کے دن بھی گلے شکوے رکھنے والے گلے ملنا گوارہ نہیں کرتے۔ نفرت، حسد اور آپسی خلفشار کو سرمایۂ زندگی سمجھ کر جیتے ہیں۔

ان کے حسد کا عالم یہ ہے کہ شاید ہی کوئی گھر یا فرد جادو ٹونے اور تعویز دھاگے سے محفوظ ہو۔ یہ لوگ ہندو سماج سے چار گنا بڑھ کر توہم پرستی اور عاملوں پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیروں، درباروں، مولویوں، مجاروں اور عاملوں پر قسمت کے حل اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے کروڑوں روپے پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ اگر یہی سرمایہ قوم کی ترقی، روزگار اور کاروبار میں لگایا جاتا تو شاید سب خوشحال ہوتے۔ مگر جیسا کہ کہا جاتا ہے: “عقل نہیں تے موجاں ہی موجاں۔”

ایک دوسرے سے منافقت اس قدر ہے کہ دوست بن کر ڈستے ہیں۔ چھوٹے جرائم سے شروع ہو کر یہ سلسلہ چوری، ڈکیتی اور قتل و غارت تک جا پہنچتا ہے۔

کہیں کسی بے گناہ کو چند ٹکڑوں کے عوض زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، تو کہیں جائیداد کی خاطر بیٹا باپ کو قتل کر دیتا ہے۔ کہیں ماں، بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے، تو کہیں غربت کا ستایا باپ پورے خاندان کو ساتھ لے کر خودکشی کر لیتا ہے۔

روح کانپ جاتی ہے سوچ کر کہ کیا اسی دن کے لیے آزادی ملی تھی؟ کیا لاکھوں جانیں اس لیے قربان کی گئی تھیں کہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں؟ کیا یہ وہ خواب تھا جس کے لیے ہمارے بڑوں نے قربانیاں دیں؟ ہرگز نہیں۔ وقت ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں۔

ہر شخص اپنے نفس کا غلام ہے۔ ہم اپنی ذات کی تکمیل میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ کسی غریب کی پکار اور بھوکے پیٹ کی فریاد سنائی نہیں دیتی۔

آج کل ہر کام میں نمود و نمائش شامل ہے۔ غریب سفید پوش کے لیے امداد لینا بھی اذیت بن چکی ہے۔ ایک باپ، جو اپنے بچوں کے لیے آٹے اور چینی کا بندوبست کرنے کی تگ و دو میں ہوتا ہے، جب ہمت کر کے خیراتی ادارے کا رخ کرتا ہے تو اس کا استقبال تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے ہوتا ہے۔ وہ بےچارہ پھر بھی شکر کرتا ہے کہ آج ایک دن تو بھوکے پیٹ نہیں سونا پڑے گا۔ جبکہ امداد دینے والے سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ کر کے خود کو سب سے بڑا سخی اور نیک ظاہر کرتے ہیں۔

لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ سب ایک ڈھونگ ہے، ایک منافقت ہے جس نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button