کالم و مضامین/Articles

یادوں کے افق پر — سعید آسی ایک فکری مشعل بردار۔

ارشاد حسن خاں سابق چیف جسٹس آف پاکستان۔

نواۓ وقت کے ادارتی شعبے کا ذکر ہو اور نام سعید آسی کا نہ آئے، یہ ممکن نہیں۔ وہ صرف ایک صحافی نہیں، بلکہ ایک عہد ہیں۔ ان کے قلم کی سچائی، افکار کی گہرائی، اور طرزِ اظہار کی روانی نے اردو صحافت میں ایک نئی جہت متعارف کروائی۔ وہ نہ صرف ایک سینئر صحافی اور ادارتی ٹیم کے سربراہ ہیں بلکہ ایک بلند پایہ ادیب، مؤثر کالم نگار اور درد دل رکھنے والے شاعر بھی ہیں۔ ان کی شخصیت فکر، شعور اور احساس کی وہ علامت ہے جو کئی دہائیوں سے قارئین کی رہنمائی کر رہی ہے۔
صحافت میں سعید آسی کی پہچان۔
سعید آسی کی صحافت حق گوئی، دیانت اور قومی حمیت کی آئینہ دار رہی ہے۔ نواۓ وقت جیسے نظریاتی اخبار میں ان کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے قلم سے لکھے گئے اداریے قومی مفاد، نظریہ پاکستان، خارجہ پالیسی، اور سیاسی اتار چڑھاؤ کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ وہ لفظوں کے ایسے معمار ہیں جو کڑوی حقیقتوں کو بھی سلیقے اور شائستگی سے بیان کرتے ہیں۔
نوائے وقت کے اداریے صرف خبروں کی ترتیب نہیں، بلکہ ایک بصیرت افروز تجزیہ ہوتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات، کشمیر کی صورت حال، افغان پالیسی، امریکی مداخلت، اور مشرق وسطیٰ کی بدلتی صورت حال پر سعید آسی کے تبصرے ہمیشہ گہری سوچ اور فکری پختگی سے بھرپور ہوتے ہیں۔
“بیٹھک” — کالم نگاری کا نیا اسلوب۔

سعید آسی کا کالم “بیٹھک” کئی دہائیوں سے نواۓ وقت کا حصہ ہے۔ یہ صرف ایک کالم نہیں، بلکہ قاری کے شعور کو جھنجھوڑنے والی تحریر ہے۔ ان کی کالم نگاری میں تجزیہ، طنز، مزاح، سنجیدگی اور شائستگی کا ایسا امتزاج ملتا ہے جو اردو صحافت میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
چاہے وہ ملکی سیاست کے بے ہنگم منظرنامے پر روشنی ڈال رہے ہوں یا عدالتی فیصلوں پر تنقید، چاہے وہ جمہوریت کے نام پر ہونے والے تماشوں کا پردہ چاک کر رہے ہوں یا عوام کے مسائل کا نوحہ لکھ رہے ہوں، ان کا انداز متوازن، مدلل اور باوقار رہتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ جراتِ اظہار کا علم بلند رکھا، مگر نفرت، تعصب اور سنسنی خیزی سے دور رہے۔
کتابیں: افکار کا خزینہ
سعید آسی کی تحریروں کا دائرہ صرف کالموں تک محدود نہیں رہا۔ ان کی نثر اور شاعری کی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جو ان کے فکری سفر اور ادبی مقام کی شہادت دیتی ہیں۔ ان کی کتاب “کب راج کرے گی خلقِ خدا” کے نام سے شائع ہوئی، جو ان کے منتخب کالموں کا مجموعہ ہے اور صحافت کے طلبہ، قارئین، اور محققین کے لیے ایک قیمتی دستاویز ہے۔

ان کے مطبوعہ کالموں پر مشتمل دوسری کتابوں“تیری بُکّل دے وِچ چور”، “شرافیہ اور عوام” اور “آئین کا مقدمہ” میں ان کی تخلیقی جولانی اور سماجی شعور جھلکتا ہے۔ ان تحریروں میں پاکستان کی سیاست، عدالتی نظام، صحافتی آزادی، اور عالمی طاقتوں کے گھناؤنے کردار کا بے باک تجزیہ ملتا ہے۔ یہ کتب محض کالموں کے مجموعے نہیں بلکہ وقت کی دھڑکنوں کو سمجھنے کا ذریعہ ہیں۔
سفر نامے_ ان کے دو سفرنامے “آگے موڑ جدائی کا تھا” اور “کس کی لگن میں پھرتے ہو” کے نام سے شائع ہوۓ ہیں جو تحقیق و تجسس اورمختلف تہذیبوں کا کھوج لگانے کے دَر وا کرتے نظر آتے ہیں اور ادبی چاشنی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔
شاعری — درد دل اور رومانیت کا سنگم۔
سعید آسی کی شاعری ان کے جذبات کی ترجمان ہے۔ ان کی اردو شاعری کی کتاب” تیرے دُکھ بھی میرے دُکھ ہیں” اور پنجابی شاعری کی کتابوں”سوچ سمندر” اور”رمزاں” کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ وہ نظم اور غزل دونوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں وطن کی محبت، مظلوموں کے حق میں آواز، اور معاشرتی ناانصافی کے خلاف بغاوت نظر آتی ہے، وہیں لطافت، نرمی اور جذبے کی تپش بھی دکھائی دیتی ہے۔
ان کا شعری مجموعہ“کلامِ سعید” اردو اور پنجابی ادب میں ان کے مقام کو مستحکم کرتا نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں فیض احمد فیض کی طرح ایک انقلابی احساس بھی موجود ہے اور احمد ندیم قاسمی جیسی نرمی بھی۔ وہ لفظوں کے سچے کاریگر ہیں، جن کی شاعری قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔
کشمیر: ایک مستقل درد۔
سعید آسی کی تحریروں میں کشمیر کا ذکر اکثر نمایاں ہوتا ہے۔ ان کے لیے کشمیر صرف ایک جغرافیائی تنازعہ نہیں بلکہ ایک قوم کے وجود، غیرت، اور خودمختاری کا مسئلہ ہے۔ وہ کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کے پُرزور حامی رہے ہیں۔ ان کے ادارتی نوٹس اور کالم بھارتی ظلم، اقوام متحدہ کی بے حسی، اور پاکستانی حکومتوں کی کمزور پالیسیوں پر ایک کھلا احتجاج ہوتے ہیں۔
ان کی تحریروں نے نہ صرف قارئین کو کشمیر کی اصل صورت حال سے آگاہ کیا، بلکہ پالیسی سازوں کو بھی جھنجھوڑا۔ ان کی تحریریں اقوام عالم کے ضمیر پر دستک دیتی ہیں اور مظلوموں کی صدا بن کر گونجتی ہیں۔
ایک استاد، ایک رہنما۔
سعید آسی صرف لکھنے والے نہیں بلکہ سکھانے والے بھی ہیں۔ ان کا اندازِ تحریر اور طرزِ فکر نوآموز صحافیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ کئی نامور صحافی، کالم نگار اور مدیر ان کی صحبت میں تربیت پا کر صحافت کے میدان میں اترے۔ ان کی رہنمائی اور شفقت ایک استاد کی مانند رہی، جو اپنی روشنی دوسروں میں منتقل کر کے خود مزید روشن ہو جاتا ہے۔
کردار کی بلندی۔
ان کا سب سے نمایاں وصف ان کی کردار کی بلندی ہے۔ انہوں نے کبھی ذاتی مفاد، شہرت یا مالی منفعت کو اپنی تحریر پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ وہ ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے رہے، خواہ اس کے لیے کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانا پڑے۔ ان کی تحریریں گواہی دیتی ہیں کہ وہ ضمیر کے قائل، دلیل کے ماننے والے، اور اصولوں کے پابند انسان ہیں۔
اختتامیہ۔
سعید آسی صرف ایک فرد نہیں، ایک ادارہ ہیں۔ ایک عہد، ایک روایت، ایک داستان ہیں۔ ان کی تحریریں ہماری فکری تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان کا قلم ایک ایسا چراغ ہے جو اندھیروں میں راستہ دکھاتا ہے۔ انہوں نے اردو صحافت کو فکری بلندی، وقار اور تہذیب عطا کی۔ آج جب ہم صحافت کو سنسنی خیزی، تعصب اور ذاتی مفاد کے شکنجے میں جکڑا ہوا دیکھتے ہیں، تو سعید آسی جیسے لوگوں کی تحریریں ہمیں امید اور روشنی کا پیغام دیتی ہیں۔
اللہ کرے سعید آسی کا قلم ہمیشہ رواں رہے، ان کی سوچ مزید نکھرے، اور ان کی تحریریں نسل در نسل علم، فہم، اور شعور کا سبب بنتی رہیں۔

Related Articles

2 Comments

  1. سعید آسی صاحب پر نہایت خوبصورت انداز میں تحریر پڑھ کر مزا آیا۔
    آسی صاحب صحافت کا روشن وہ آفتاب ہیں جن کی روشنی میں ہم نے راستہ تلاش کیا اور ان کے اداریے اور کالم پڑھ پڑھ کر صحافت میں اپنی درست سمت کا انتخاب کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک فرد نہیں ایک ادارہ ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسے درویش صحافی اب نایاب ہو چکے ہیں۔ اللہ آسی صاحب کا سایہ ہم صحافت کے طالب علموں پر سلامت رکھے ۔

  2. سعید آسی صاحب لکھتے وقت دریا کی روانی کی سمت کا تعین کر کے نہیں لکھتے اگر ان کا نظریہ بیتی موجوں کے مخالف سمت ہے تو وہ مخالف سمت ہی ڈٹ کے کھڑے رہیں گے ۔۔۔۔ میڈیا سوشل میڈیا پہ موجود شور اس ن کی سوچ اور تجزیاتی مہارت کا رخ نہیں بدل سکتا اور یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button