”شریفوں“ کی وجہ سے ملک قرضوں کی دلدل میں دھنس گیا۔

تحریر۔ راجہ شاہد رشید
سرکار ملازمین موجودہ حکومت سے سخت ناراض ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت نے ہمارے ساتھ یہ ”اُستادی“ کی ہے کہ ہماری تنخواہیں 2017ء کی ( basic pay ) کی مطابقت سے بڑھائی گئی ہیں جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ 2025ء کی بنیادی تنخواہ کے حساب سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور اگر کم از کم بھی کیا جائے تو 50 فیصد تک کا اضافہ تو ضرور کیا جانا چاہیے ۔ ان ”نونیوں“ کی ان فنکاریوں کی وجہ سے سرکاری نوکر ان سے ہمیشہ سے ہی نالاں رہے ہیں ۔ ان نون لیگی ”شریفوں“ کے یہ فریب و فراڈ دیکھ کر ہی انہیں ملازم دشمن بھی گردانا جاتا ہے بالخصوص جناب اسحاق ڈار کو ، پرانی بات ہے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ بحیثیتِ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل میں کیا فرق ہے تو جواباً انہوں نے فرمایا تھا کہ اول الذکر ایک اکاؤنٹنٹ ہیں جب کہ مفتاح اسماعیل واقعی اکانومسٹ ہیں ۔ چھوٹے درجے کے ملازمین کا کہنا ہے کہ کوئی وزیر خزانہ یا ماہر معیشت اس تنخواہ سے ہمارا ایک ماہ کا بجٹ تو بنا کر دکھائے ۔ میں نے صدر آصف علی زرداری کے پہلے دورِ صدارت میں سرکاری ملازمین کو زرداری زندہ باد کہتے اور صدرِ مملکت کو دعائیں دیتے دیکھا تنخواہوں میں بہتر طور پہ اضافہ کرنے کی وجہ سے ۔ وہی پہلی جمہوری حکومت تھی جس نے باعنوان ”میموگیٹ“ اپنے وزیراعظم کا آؤٹ ہونا تو قبول کر لیا مگر یہ ریکارڈ بھی بنا ڈالا کہ پہلی بار کسی عوامی سیاسی حکومت نے پانچ سال مکمل کیے ہیں ۔ بعد میں پھر ”نونی“ حکومت آگئی ، میاں محمد نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم بن بیٹھے پھر نکالے بھی گئے ۔ اسی عہد میں ان ”شریفوں“ کے سب کالے کارنامے اور پانامے کھلے جن کی منی ٹریل اج تک نہیں ملی ۔ جی ہاں اسی عہد میں ہی میاں محمد نواز شریف نے سب سے زیادہ سودی قرضے لیے جن کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں ۔ اس کے بعد قریباً چار سالہ جو عمرانی عہد تھا وہ بھی بڑی مشکل میں گزرا ۔ پھر رجیم چینج ہوا اور نتیجتاً شہباز شریف آگئے ایک ڈیل کے ذریعے بڑے میاں برطانیہ بھاگ گئے جبکہ چھوٹے میاں وزیراعظم بن گئے اور اپنے بڑے بھائی کی طرح بڑے بڑے قرضے لینا شروع ہو گئے حتیٰ کہ آج بھی وہی سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ ملک و قوم کو قرضوں کی گہری دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے ۔ اسٹیٹ بینک کی شائع شدہ دستاویزات کے مطابق فروری 2024ء تک مرکزی حکومت کا مقامی قرضہ بیالیس ہزار چھ سو پچہتر ارب روپے تھا جو مئی 2025ء تک بڑھ کر 53 ہزار چار سو ساٹھ ارب روپے ہو گیا ۔ اسی طرح فروری 2024ء تک وفاقی حکومت کا بیرونی قرضہ باٸیس ہزار ایک سو چونتیس ارب روپے تھا اور مئی 2025ء تک مرکزی حکومت کا بیرونی قرضہ 22 ہزار 585 ارب روپے رہا ۔ الغرض اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اور اس غریب پاکستانی قوم کو سب سے زیادہ اور بھاری بیرونی سودی قرض شکنجوں میں کسنے کا سہرا ان ”شریفوں“ کی سر ہی سجتا اور جچتا ہے جو گزشتہ چالیس سال سے غریب عوام پر مسلط ہیں اور قرضوں پہ قرضے لیے جا رہے ہیں ۔ ان جیب کتروں اور جعل سازوں کے خوشامدی مُنشی مشیر جھوٹ تو اس طرح باندھ کر اور ٹھونک بجا کر بولتے ہیں کہ سچا بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں تو جھوٹا ہوں بس یہی سب سے بڑے سچے ہیں ۔ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مصداق ہماری صوبائی وزیر بیانات بولتی ہے تو اخبارات یہ سُرخی سجاتے ہیں کہ ”پی ٹی آئی کے 4 سال پنجاب میں لوٹ مار کا سیاہ ترین دور تھا“ پوچھنا یہ تھا کہ پچھلے پچاس سال سے پنجاب کی پردھان تو آپ کی لیگ رہی ہے جبکہ آپ سارا گند اس پی ٹی آئی پر پھینک رہی ہیں جسے ٹھیک سے چار دن بھی چلنے نہیں دیا گیا ۔ شاعر نے کیا ہی کمال شعر کہا ہے کہ ۔
سچ کو تمیز ہی نہیں ہے بات کرنے کی
جھوٹ کو دیکھو کتنا میٹھا بولتا ہے
جواب آں غزل کے طور پہ صوبائی وزیر بیانات خیبر پختون خوا بیرسٹر محمد علی سیف فرماتے ہیں کہ ” شریف خاندان پنجاب کے عوام کا پیسہ لندن منتقل کر رہا ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب عوام کے دس کھرب روپے ڈکار گئی ہیں لہٰذا پنجاب حکومت دس کھرب روپے کی سنگین مالی بے ضابطوں کا جواب دیے ۔ انہوں نے کہا کہ آڈٹ رپورٹ پر خاموشی پنجاب میں جاری لوٹ مار اور کرپشن کا واضح ثبوت ہے“۔ مجھے پھر ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ ۔
ہم بھی کیا عجب ہیں کڑی دھوپ کے تلے
صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر
موجودہ اتحادی حکومت جو خود کو ہوشیار اور تجربہ کار بھی بہت سمجھتی ہے ، انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان کے وعدے اور دعوے کبھی بھی درست ثابت نہیں ہوئے ہیں ۔ غریب عوام کو بے وقوف بناؤ اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے کبھی کامیابی نہیں ملا کرتی ۔ ہمارے کرتا دھرتاؤں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ آخر ہمارا مستقبل کیا ہو گا ۔ کاش یہ حکمران ہوش کے ناخن لیتے اور ملک و قوم کا سوچتے جنہوں نے اپنی تنخواہوں میں تو بے پناہ اضافہ کر لیا ہے لیکن یہ نہیں سوچا کہ ایک عام پاکستانی کا کچن کیسے چلتا ہو گا ۔ اس جہاں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں جبکہ غریبوں کے بھوکے ننگے بچے دو وقت کی روٹی کو روتے ہیں اور پینے کے لیے صاف پانی کو ترستے ہیں ۔ صد افسوس و ماتم کہ ان ظالموں کی عدم توجہ اور بے حسی کی بدولت اس مزدور کا چولہا نہیں جلتا جس کے خون پسینے سے ان کی ملیں چلتی ہیں ۔
بھوک پھرتی ہے مرے دیس میں ننگے پاؤں
رزق ظالم کی تجوری میں چُھپا بیٹھا ہے