*علم فلکیات سے بارشوں کی پیش گوئی
خالد غورغشتی
فلک شناسی صدیوں پرانا علم ہے۔ قدیم مذاہب و اقوام میں اس سے متعلق کثیر تحقیقی مواد ملتا ہے۔ مصریوں ،یونانیوں اور چینیوں کے ہاں اجرام فلکی سے متعلق کثیر سانئسی و تحقیقی مواد میسر تھا۔ یونان کے ایک فلاسفر تھیلر نے زمین کو گول اور چاند کے نور کو مستعار قرار دیا تھا۔ فیثا غورث نے کہا تھا کہ زہرہ و مریخ سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اسکندریہ کے ارسٹارکس نے تیسری صدی قم میں سورج ،چاند اور زمین کا نصف قطر معلوم کیا اور اسے گمان ہوا کہ سورج ساکن ہے اور زمین دیگر ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہی ہے۔ یونان کے ایک منجم ہپارکس 150 قم نے فلک بینی کے آلات کو زیادہ مؤثر بنایا اور ستاروں کی ایک ایسی فہرست تیار کی جو سولہویں صدی تک صحیح سمجھی جاتی رہی۔ بطلیموس نے سورج اور ستاروں کی گردش پر تیرہ کتابیں لکھیں۔ جو اہل عرب کے ہاں المجطی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ تمام مسلم ،یہودی اور عیسائی پندرھویں صدی تک اسی نظریے کے قائل تھے۔ پندرھویں صدی میں پولینڈ کے نکولس کاپرنیکس نے یہ تحقیق کی کہ سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ جب پرینکا نے یہ تجربات کتابی شکل میں شائع کروائے تو اس پر پابندی عائد کردی گئی اور اس کی تمام تحقیقی کتابیں ضبط کر لی گئیں۔ سورج کی رفتار کتنی ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے کیلیفورنیا کے ڈاکٹر اٹیکین کے مطابق ہمارا نظام شمسی اپنی کہکشاں کے ساتھ 44 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کسی نا معلوم منزل کی طرف گامزن ہے۔ یہ سب سمجھانے کےلیے اتنی ساری قدیم سائنسی معلومات عرض کی گئی، اب تو زمانہ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا آ چکا ہے۔ لیکن ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی اپنی عوام کو جہالت کی دلدل سے نکالنے میں ابھی تک ناجانے کیوں کامیاب نہ ہوسکے ہیں۔ دنیا بھر میں فلکیات کے علم کو بنیادی علم کی حثیت سے یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں پڑھایا جاتا ہے، لیکن ہم اب تک اس کے وجود سے ہی انکاری ہیں۔ ورنہ مسلم سائنس دان صدیوں سے علم فلکیات پر کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن اب اچانک کچھ صدیوں سے مسلمانوں کا سانئسی علوم سے کنارہ کشی اختیار کرنا، سمجھ سے بالاتر ہے۔ حالاں کہ فلکیاتی علم سیکھنے کے اشارے ہمیں قرآن کریم سے واضح طور پر ملتے ہیں۔ گوگل کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق برطانوی سائنس دان 85 فی صد تک درست بارشوں کی پیش گوئی کرنے تک پہنچ چکے ہیں اور ہم وہی توہم پرستی اور جہالتوں میں جھکڑے ہوئے گھوم رہے ہیں۔