فاتح بھارت: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں ایک نئی تاریخ رقم

تحریر: اعجاز یونس
قومیں جب اپنی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر درست سمت اختیار کر لیں، تو وہ نہ صرف اپنی تقدیر بدلتی ہیں بلکہ عالمی منظرنامے پر بھی نئے خدوخال ابھارتی ہیں۔ 22 مئی 2025ء کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں منعقدہ قومی تقریب بھی اسی نوعیت کی ایک تاریخی گھڑی تھی، جب مملکتِ خداداد پاکستان نے اپنے ایک سپوت، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے منصب پر فائز کر کے نہ صرف عسکری روایات کو نئی جہت دی بلکہ ایک عظیم قومی فتح کو امر کر دیا۔اس شاندار تقریب کی صدارت صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کی، جبکہ وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزراء، عسکری قیادت، صوبائی سربراہان، سفارتی نمائندے اور معززین کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس یادگار لمحے میں، جب “عصائے منصب” فیلڈ مارشل عاصم منیر کو سونپی گئی، پورے ایوان میں گونجتی تالیوں نے اس قومی اعزاز کی گہرائی کو محسوس کرایا۔
یہ اعزاز محض ایک فوجی ترقی نہیں، بلکہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی شاندار عسکری کامیابی کا عملی اعتراف ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت وفاقی کابینہ نے متفقہ طور پر اس فیصلے کی منظوری دی، جو اس بات کا مظہر ہے کہ یہ پیش رفت صرف عسکری حلقوں کا نہیں، بلکہ پورے ریاستی نظام کا اجتماعی اعتماد ہے۔وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اسے دشمن کے غرور کے خلاف ایک “فیصلہ کن جوابی وار” قرار دیا۔ ان کے مطابق، صرف چار گھنٹے کی جنگ میں دشمن کی جارحیت کا ایسا دندان شکن جواب دیا گیا کہ بھارت کو فوری جنگ بندی پر آمادہ ہونا پڑا۔ پاکستان نے یہ معرکہ روایتی میدانِ جنگ میں جیتا، مگر دراصل یہ کامیابی تدبر، نظم، ہم آہنگی اور پیشہ ورانہ مہارت کی فتح تھی۔
یہ امر تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا کہ پاکستان نے اپنے عسکری شعور اور جذبے سے دنیا کو حیران کیا، مگر اس بار فرق یہ تھا کہ بھارت، جو خود کو خطے کا چوکیدار سمجھتا رہا، عبرتناک شکست کے بعد اب داخلی انتشار اور عالمی تنہائی کا شکار نظر آتا ہے۔ بھارتی میڈیا کی جھوٹی کہانیوں، مودی سرکار کے زہریلے بیانیے اور جارحانہ عزائم کو اس جنگ نے آئینہ دکھا دیا۔بھارتی گولہ باری، جس میں عام شہری خصوصاً عورتیں اور بچے نشانہ بنے، پاکستان کے لیے انتہائی صبر آزما مرحلہ تھا۔ لیکن افواجِ پاکستان نے اعلیٰ تحمل کا مظاہرہ کیا، اور جب جواب دینے کا وقت آیا تو نہ صرف زمینی محاذ پر برتری حاصل کی بلکہ فضائی اور بحری افواج نے بھی دشمن کی دفاعی حکمتِ عملی کو مکمل طور پر ناکام کر دیا۔پاکستانی فضائیہ کی قیادت ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر نے کی، جن کی سربراہی میں دشمن کے جدید ایئر ڈیفنس سسٹم اور مہنگے رافیل طیارے ناکارہ ہو کر رہ گئے۔ ان کی شاندار کارکردگی کے اعتراف میں مدتِ ملازمت میں توسیع کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ انٹیلیجنس اداروں کا کردار بھی ناقابلِ فراموش ہے، جنہوں نے پیشگی معلومات، درست اندازوں اور بروقت فیصلوں سے جنگ کی بساط پلٹ دی۔
اس عسکری کامیابی کا ایک اور پہلو، جو شاید زیادہ اہم ہے، وہ سفارتی محاذ پر پاکستان کی موثر حکمتِ عملی تھی۔ وزیراعظم، وزیر خارجہ اور ان کی ٹیم نے عالمی اداروں، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دوست ممالک سے بھرپور رابطہ کر کے بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا۔ پہلگام واقعہ پر عالمی تحقیقات کی پاکستانی پیشکش نے سچائی کی فتح کو اور بھی نمایاں کر دیا، جب بھارت نے تفتیش سے گریز کر کے اپنی کمزوری تسلیم کی۔اس جنگ نے ثابت کیا کہ پاکستان نہ صرف دفاعی طور پر مستعد اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے، بلکہ قومی یکجہتی، قیادت کے اعتماد، اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کے لحاظ سے بھی ایک منظم ریاست ہے۔ بھارتی دفاعی منصوبہ بندی، خواہ وہ فرانسیسی جنگی طیاروں پر انحصار ہو یا روسی میزائل شیلڈز، اس جنگ میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ برعکس اس کے، پاکستان نے چینی دفاعی ٹیکنالوجی، مقامی ماہرین کی ذہانت اور اپنے قومی جذبے سے بھارت کے تمام حربے بے اثر کر دیے۔جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانے کا فیصلہ محض ایک عسکری اعزاز نہیں، بلکہ پاکستان کے دفاعی نظریے، وقار اور خودداری کا آئینہ دار ہے۔ ان کا تقرر اس بات کا واضح پیغام ہے کہ پاکستان اپنے دشمنوں کے عزائم کو سمجھتا ہے، ان کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، اور امن کی خواہش کو کمزوری نہیں سمجھتا۔
جنرل ایوب خان کو 1959ء میں فیلڈ مارشل کا رتبہ ملا، مگر وہ زیادہ تر ایک سیاسی علامت بن کر رہ گیا۔ اس کے برعکس فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تقرری ایک جنگی معرکے میں حاصل کردہ عملی کامیابی کا مظہر ہے۔ ان کی شخصیت پیشہ ورانہ مہارت، ذہانت، جرات، اور سفارتی فہم کا مجموعہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کامیابی کو کس طرح استعمال کیا جائے؟ کیا یہ صرف تقریبات، تمغوں اور تعریفی بیانات تک محدود رہے گی؟ یا ہم اس لمحے کو قومی وحدت، تعمیر وطن، اور مستقبل کی سمت متعین کرنے کے لیے استعمال کریں گے؟ وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے اختتام پر درست کہا کہ یہ وقت “خوشامدیوں، مفاد پرستوں اور درباری سیاست” سے ہوشیار رہنے کا ہے۔یہ فتح ہمیں ایک موقع دے رہی ہے۔ موقع اس بات کا کہ ہم ایک نئے عزم، اتحاد اور وژن کے ساتھ آگے بڑھیں۔ تاریخ صرف وہی یاد رکھتی ہے جو اقوام کے ماتھے کا جھومر بنتی ہے۔ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا نام، اب نہ صرف عسکری تاریخ میں بلکہ پاکستان کے قومی شعور میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو چکا ہے۔