کالم و مضامین/Articles

پانی سونا نہیں، زندگی ہے!

تحریر: رخسانہ سحر

کبھی بزرگ کہا کرتے تھے کہ “جس گھر میں پانی ہو، وہاں برکت رہتی ہے۔” اُس وقت شاید ہمیں یہ بات ایک محاورہ لگتی تھی، مگر آج جب ہر بوند قیمتی لگنے لگی ہے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بات محاورہ نہیں، ایک پیش گوئی تھی۔
دنیا کے بیشتر خطوں میں، خاص طور پر پاکستان جیسے زرعی ملک میں، پانی محض ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ زندگی کی علامت ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اس نعمتِ خداوندی کو جس بے دردی سے ضائع کیا ہے، وہ ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
سونا زمین کے اندر دفن ہوتا ہے اور جب چاہیں نکالا جا سکتا ہے۔ مگر پانی زمین کے اندر سے جب ایک بار خشک ہو جائے، تو اسے واپس لانا ممکن نہیں۔
سونا آپ کو دولت دیتا ہے، مگر پانی آپ کو زندگی دیتا ہے۔
اگر سونا ختم ہو جائے تو شاید بازاروں کی چمک مدھم پڑ جائے، مگر اگر پانی ختم ہو گیا تو پوری دنیا کی روشنی بجھ جائے گی۔
بدقسمتی سے ہم نے ہمیشہ سونا جمع کرنے کی فکر کی، مگر پانی بچانے کی نہیں۔ گھروں میں نلکے کھلے رہتے ہیں، گاڑیاں روز بہتے پانی سے دھوئی جاتی ہیں، کھیتوں میں ضرورت سے زیادہ پانی بہا دیا جاتا ہے۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر یہی روش جاری رہی تو ہمارے بچے شاید “پانی” کو ویسے ہی میوزیم میں دیکھیں گے جیسے آج ہم آثارِ قدیمہ میں کانسی کے برتن دیکھتے ہیں؟
اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی قلت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
کبھی وہی دریائے سندھ، چناب اور جہلم جن کے کنارے زندگی بستی تھی، آج خشک دھرتی کے گواہ بنتے جا رہے ہیں۔
شہروں میں بورنگ کا پانی نیچے جا رہا ہے، دیہات میں کنویں خشک ہو رہے ہیں۔
ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اگر یہی رفتار رہی تو اگلے پانچ سے دس سالوں میں پاکستان پانی کی شدید قلت والے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔
یہ محض ایک سائنسی یا ماحولیاتی مسئلہ نہیں، یہ انسانی بقا کا سوال ہے۔
جب پینے کا پانی نایاب ہوگا تو کوئی قانون، کوئی کرنسی، اور کوئی طاقت بھی اس کی جگہ نہیں لے سکے گی۔
ہم عموماً سمجھتے ہیں کہ پانی صرف نلکوں، دریاؤں یا واٹر ٹینکوں میں موجود ہے۔ لیکن درحقیقت پانی ہمارے رویوں میں بھی بہتا ہے۔
ہم جتنا ضائع کرتے ہیں، اتنا ہی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں “پانی کی معیشت” پر بات ہو رہی ہے۔
پانی اب ایک سماجی، اقتصادی اور سیاسی ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔
جو قوم پانی کو محفوظ رکھے گی، وہی مستقبل میں ترقی کرے گی۔
پانی کے تحفظ کے لیے ہمیں قومی سطح پر بھی سوچنا ہوگا اور انفرادی سطح پر بھی۔
گھروں میں پانی کے نل بند رکھنا معمول بنائیں۔
گاڑیاں نلی سے نہیں، بالٹی سے دھوئیں۔
کسان جدید آبپاشی کے نظام اپنائیں جیسے drip irrigation۔
حکومت ذخائرِ آب (ڈیمز) کی تعمیر کو ترجیح دے۔
تعلیمی اداروں میں پانی بچانے کی آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
یہ اقدامات معمولی لگ سکتے ہیں، مگر یہی معمولی قدم ایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
کبھی سوچا ہے اگر کسی دن نل کھولیں اور پانی کی جگہ صرف ہوا نکلے؟
کیا تب ہمیں احساس ہوگا کہ ہم نے کتنی بڑی غلطی کی تھی؟
ابھی وقت ہے کہ ہم پانی کو “فی تولہ” نہیں بلکہ فی قطرہ کے حساب سے قیمتی سمجھنا شروع کریں۔
پانی کو بچانا صرف حکومت کا کام نہیں، بلکہ یہ ہر شہری کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
پانی کی ہر بوند ایک دعا ہے اسے ضائع نہ کریں۔
> “سونا نہ ہو تو زیور نہیں بنتا، مگر پانی نہ ہو تو انسان نہیں بنتا۔”

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button