اردو ادبیات ولسانیات کے مطالعہ اور فروغ میں کتب خانوں کا کردارکے موضوع پر سیمینار کا انعقاد

رپورٹ:اکرام الحق
سوسائٹی فار دی پروموشن آف ریڈنگ اینڈ امپروومنٹ آف لائبریریز (اسپرل)کے زیر اہتمام اور انجمن ترقی ِاردو پاکستان کے اشتراک سے ایک روزہ سیمینار بروز 11اکتوبر 2025ء کوشہر قائد کراچی میں منعقد ہوا،جس کا موضوع، ”اردو ادبیات ولسانیات کے مطالعہ اور فروغ میں کتب خانوں کا کردار“ تھا۔
سیمینار کے مہمان خصوصی جناب ریٹائرڈ بریگیڈیئر کرار حسین عابدی تھے،جبکہ صدرات کے فرائض جناب واجد جواد (صدر، انجمن ترقی اردو)نے انجام دے۔
شرکاء گفتگو میں علم و ادب کی نامور شخصیات شامل تھیں،جنہوں نے اپنی فکر انگیز اور بصیرت افروز گفتگو سے سامعین کو محظوظ کیا۔ مقررین میں جاوید صباء،سید عابد رضوی، ڈاکٹر یاسمین فاروقی، ڈاکٹر رفعت پروین صدیقی، محمود خان، پروفیسر شاداب احسانی اور بریگیڈیئر(ر) کرار حسین عابدی شامل تھے۔
سیمینار میں شہر قائد کے معروف اداروں کے لائبریرینز، اساتذہ، محققین اور علمی و ادبی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تقریب کا آغاز جناب ندیم ظفرنے تلاوت قرآن سے کیا، اس کے بعد استقبالیہ کلمات صمیم کاردار نے پیش کیے،انہوں نے اسپرل کے اغراض ومقاصداور سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔
اختتامی کلمات جواہر علیم نے ادا کیے، مہمانوں اور شراء محفل کا شکریہ ادا کیا۔جبکہ نظامت کے فرائض ربیعہ علی فریدی نے بخوبی انجام دے۔
پروگرام کا بنیادی مقصد موجود ہ دور میں اردو زبان کی اہمیت اور ادب کی بقاء میں کتب خانوں کے کردار کو اُجاگر کرنا تھا۔
شرکاء نے اسپرل کی اس کاوش کو سراہا اور آئندہ بھی ایسے علمی و ادبی پروگرام منعقد کرنے کی تجویز دی۔
مدیر ماہ نامہ ”قومی زبان“،ڈاکٹر یاسمین سطانہ فاروقی نے کتاب کی اہمیت، کتب خانوں کی افادیت اور علم کے اس تحفے پر روشنی ڈالی جو بحیثیت مسلمان ہمیں عطا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتب خانے آج بھی فعال کردار ادا کررہے ہیں، جبکہ ترقی یافتہ ممالک اپنی قومی زبان پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ہمیں افسوس ہے کہ ہم اردو بولنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔انہوں نے اردو کے زوال کے اسباب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے علمی کتب خانے تباہ کئے گئے تاکہ انہیں علمی و ادبی لحاظ سے محروم کیا جا سکے۔کتب خانے صدیوں کے علمی ورثے کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہیں۔انہوں نے اسپر ل کے منتظمین کی کاوشوں کو سراہا اوران کی حوصلہ افزائی کی۔
محمود خان،جو شہر قائد کے ایک سرگرم سماجی کارکن، منتظم ساکنا ن شہر قائداور علم و ادب کے شیدائی ہیں، نے اسپرل کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے نوجوانوں میں تعلیم اور مطالعے کے فروغ پر زوردیا، اور اسپرل کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کی ترغیب دی۔
مدیر مجلہ ”اردو“پروفیسر ڈاکٹرشاداب احسانی،سابق صدر، شعبہ اردو جامعہ کراچی،نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ اردو زبان کا وجود کس طرح عمل میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ جب اردو تعلیمی نصاب کی زبان تھی تو انگریزوں نے سیاسی مقاصد کے تحت اسے نصاب سے نکال دیااور ذہنی غلامی کو فررغ دیا۔ان کے مطابق جب تک ہم اپنا تعلیمی نظام قومی زبان میں نہیں لائیں گے، ترقی ممکن نہیں۔انہوں نے اردو سے دوری کوزوال کی بڑی وجہ قرار دیا۔
مشہور شاعر و صداکار جاوید صبا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کتب خانوں کو جدیدیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہے۔ انہوں نے مطالعے کے ماحول کی اہمیت پر خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی اورکہا کہ ٹیکنالوجی سہولت کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں کو بھی محدود کررہی ہے، مگر سیکھنے کا عمل کبھی رُکنا نہیں چاہے۔
ڈاکٹر رفعت پروین صدیقی،صدر، شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی،نے اپنی گفتگو میں زبانوں کی ارتقاء، قومی زبان کی اہمیت، اور دیگر زبانوں کے باہمی تعلق پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ آج انسان سوچتا ایک زبان میں ہے، لکھتا دوسری زبان میں اور چھبتا کیسی تیسری میں، جس سے مفہوم بگڑ جاتا ہے۔انہوں نے اسپرل کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ اتنے اہم موضوع پر اتنے اعلی مقررین کو مدعو کرنا قابل تحسین عمل ہے۔
سید عابدرضوی خازن ومشیرعلمی و ادبی، انجمن ترقی اردو،نے کتب خانوں کی اہمیت اور زبان کے زوال پرمفصل گفتگو کی۔انہوں نے انجمن کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی نیا کتب خانہ قائم کرنا چاہے توانجمن ترقی اردو پاکستان بلامعاوضہ کتابوں کی فراہمی میں تعاون کرے گا۔
آخر میں مہمان خصوصی، کالم نگار،مصنف اور دفاعی تجزیہ نگار، بریگیڈیئر (ر) کرارحسین عابدی نے کہا کہ اردو کی افادیت کو دانستہ کم کیا جا رہا ہے تاکہ قوم علمی زوال کا شکار ہو، انہوں نے کہا، ”کتاب اور اردو زبان زندہ ہے، زندہ تھی اور زندہ رہے گی۔“انہوں نے اسپرل کی علمی وادبی کاوشوں کو سراہا اوراتنے خوبصورت پروگرام میں مدعو کیے جانے پر شکریہ ادا کیا۔
اسپرل کے صدر اکرام الحق نے ریاض (سعودی عرب) سے اپنا ویڈیو پیغام ارسال کیا،جس میں انہوں نے تمام مہمانوں اور شرکا ء کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے اردو ادب کے وسیع ذخیرے کو ڈیجیٹل شکل میں منتقل کرنے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا یہ علمی سرمایہ آن لائن آزاد رسائی کے ذریعے محققین کے لئے دستیاب ہونا چاہے۔ان کے مطابق، جامعات کے کتب خانوں اور اردو زبان و ادب کے تحقیقی اداروں کے مابین تعاون و اشتراک سے اردو زبان وادب میں تحقیق کے نئے افق کھلیں گے اور علمی ترقی کی راہیں مزید ہموار ہوں گی۔
اس سیمینار کانتیجہ یہ نکلا کہ شرکائے محفل نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں کتب خانوں کے کردار کو نہایت اہم قراردیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ دور میں لائبریریزصرف علم کے ذخیرے نہیں بلکہ فکری وثقافتی تربیت کے مراکز ہیں۔مقررین کی گفتگو سے یہ پیغام ابھراکہ اگر قوم کو علمی زوال سے بچانا ہے تو قومی زبان اورکتب بینی کی عادت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ سیمینار نے اس امر کو اجاگر کیاکہ کتب خانے نہ صرف ماضی کے علمی ورثے کو محفوظ رکھتے ہیں بلکہ نئی نسل کو مطالعے، تحقیق اور زبان کی خدمت کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ شرکاء نے اسپر ل کی اس علمی کاوش کو سراہتے ہوئے اس نوع کے پروگرامو کے تسلسل کی خواہش ظاہر کی۔
پروگرام کے کا میاب انعقاد میں ندیم ظفر،صمیم کاردار، جواہر علیم، اکرام الحق اور ربیعہ علی فریدی نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر آمنہ خاتون (لائبریری پروموشن بیورو) نے شرکاء کو بیورو کی مطبوعات بطورتحفہ پیش کیں۔
سیمینار کے اختتام پر مہمان خصوصی، صدر اورتمام مقررین کو ٹیم اسپرل کی جانب سے شیلڈزاور پھولو ں کے گلدستے پیش کئے گئے۔ پروگرام کا اختتام ایک پر تکلف چائے کے ساتھ ہوا۔