کالم و مضامین/Articles

عید الاضحی سنت ابراہیمی کا حقیقی فلسفہ زندگی

تحریر۔اورنگزیب اعوان

عید الاضحٰی امت مسلمہ کا ایک مقدس مذہبی تہوار ہے. اس دن مسلمان اپنے رب العزت کے حکم پر فریضہ قربانی ادا کرتے ہیں. اس دن امت مسلمہ حج بھی ادا کرتی ہے . اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا. کہ میری راہ میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر دے. تو آپ نے بنا کچھ سوچے. اپنے بیٹے کی قربانی کا ارادہ کر لیا. جب آپ نے ان کی گردن مبارک ہر تیز دھار چھری چلائی. تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ ایک دبہ بھیج دیا. یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی لازوال قربانی کو سنت ابراہیمی سے منسوب کرکے قیامت تک زندہ کر دیا گیا. دنیا بھر کے مسلمان دس ذوالحجہ کو سنت ابراہیمی مناتے ہیں. اور اپنے رب العزت کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. سنت ابراہیمی محض جانور کی قربانی کا نام نہیں. بلکہ اس سنت کو منانے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی دی گئی نعمتوں میں سے اس کی راہ میں صدقہ جاریہ کرنے کا بھی نام ہے. اللہ رب العزت جب کسی انسان کو کسی نعمت سے نوازتا ہے. تو پھر اس کا امتحان بھی لیتا ہے. کہ وہ اس کی راہ میں اس نعمت کا استعمال کیسے کرتا ہے. کسی کو اولاد، کسی کو مال و دولت تو کسی کو علم و عقل سے نوازا جاتا ہے. اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنی راہ میں خرچ کرنے کا درس بھی دیتا ہے. جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں. وہ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کر لیتے ہیں. اور اس کے محبوب لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے. جو لوگ ان نعمتوں کو اپنی محنت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں. اور ان کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں. ان کے دنیا اور آخرت میں رسوائی ہے. انسان کا بسیرا اس دنیا میں عارضی ہے. اسے اپنی آخرت کی تیاری کرتے رہنا چاہیے. یہ دنیا کی زندگی اور عارضی مال و دولت سب اس دنیا فانی کا سامان ہے. جس نے ایک دن فنا ہو جانا ہے. انسان کی اچھائی اور مثبت کردار ہمیشہ زندہ رہتا ہے. جو اللہ رب العزت کی راہ میں صدقہ و خیرات کرتے ہیں. اللہ تعالیٰ انہیں اس دنیا میں اس مقام پر پہنچا دیتا ہے. جہاں لوگ محنت سے بھی نہیں پہنچ سکتے. پیغمبر اسلام، اولیاء اللہ کی زندہ مثالیں آپ لوگوں کے سامنے ہیں. وہ بظاہر اس دنیا فانی سے کوچ فرما گئے ہیں. مگر ان کا نام اور ان کا نیک عمل جاری و ساری ہے. ان کے مزارات پر آج بھی عوام کا جم غفیر ریتا ہے. جو نذر و نیاز سے مستفید ہوتا ہے . اللہ رب العزت نے اپنے محبوب لوگوں سے وعدہ کیا ہے. کہ وہ قیامت تک ان کے اچھے اعمال کو لوگوں کے لیے مشعل راہ بنا دے گا. وہ اس پر عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت میں کامیابیاں سمیٹے گے. عید قربان ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا بھی سبق دیتی ہے. خطبہ حج میں بیان کیا جاتا ہے. کہ تمام امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے. جسم کے کسی حصہ کو بھی تکلیف ہوگی. تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرے گا. مگر آج معاملہ اس کے الٹ چل رہا ہے. مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے نہتے مسلمان دشمن کی گولیوں اور بھوک پیاس سے مر رہے ہیں. امت مسلمہ ان کی مدد کرنے کی بجائے. امریکی صدر ٹرمپ کی خوش آمد میں مصروف ہے. جو اپنے مہلک ہتھیاروں سے ننھے منے معصوم بچوں کو شہید کر رہے ہیں. ہم ان سے دفاعی معاہدے کر رہے ہیں. اسے امت مسلمہ کی بے بسی کہے. یا خوف. جو کفار سے بدلہ لینے کی بجائے. اس سے دوستی کر رہی ہے . اس بار عید الاضحی مناتے وقت امت مسلمہ کو سوچنا چاہیے. کہ کیا وہ حقیقت میں سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہے. یا محض لوگوں کو دیکھاوے کے لیے جانوروں کی قربانی کر رہے ہیں. اللہ رب العزت کو ہماری ایسی قربانیوں کی ہرگز ضرورت نہیں. ہمارے عزیزو اقارب، امت مسلمہ بھوک سے مر رہی ہو. اور ہم قمیتی جانوروں کی قربانی کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہو. کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل پیرا ہے. اللہ تعالیٰ نے ایسی دیکھاوے کی عبادت ہمارے منہ پر مارنی ہے. انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اپنی عبادت کروانا ہرگز نہ تھا. اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تو فرشتے ہی کافی تھے. جو ہر گناہ سے پاک ہیں. اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا ہی اس لیے فرمایا. کہ وہ دنیا میں اپنے کردار سے ثابت کر سکے. کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان کو تکلیف نہیں پہنچے گی. بلکہ وہ نسل انسانیت کی خدمت کو اپنا نصب العین بنا کر زندگی بسر کرے گا. ہر انسان سوچتا ہے. کہ ستر یا ساٹھ سال زندہ رہے گا. ان سالوں کا کیا فائدہ. اگر اس نے ساری زندگی کسی دکھی انسان کی خدمت نہ کی. وہ تو خود اس کائنات پر بوجھ بن کر جیتا رہا. آئیں اس عید الاضحی پر عہد کرے. کہ ایک دوسرے کی خوشیوں کے لیے اپنے مال و دولت کی قربانی کرنا سیکھے. اپنی طاقت کے نشہ میں کسی کا ناحق خون نہ بہائے. لوگوں میں پیار و محبت تقسیم کرے. یہی سنت ابراہیمی کا حقیقی فلسفہ زندگی ہے.

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button