پاکستان کو سیاستدان انتہائی نازک موڑ پر لے آئے ہیں ،ہر شعبے کو بحران کا سامنا ہے ،ملک پر ڈیفالٹ ہونے کی باتیں زمانے بھر میں عام ہیں ،ملک کی سیکیورٹی سے لے کر معیشت تک کہیں بھی استحکام نہیں ،قوم نے دھوکے پہ دھوکہ کھایا اور کہیں بھی کسی مقام پر اپنی جڑیں کاٹنے والوں کو دھتکارنے کا برملا اظہار نہیں کیا۔
قوم کا سب سے زیادہ نقصان تو سیاست میں تجربات کرنے والوں نے کیا ہے وہ چار سال تک دھڑلے سے ہر کام یہ کہہ کر انجام دیتے رہے کہ ہم سے بڑھ کر کون ؟ جو ہم جانتے ہیں کسی کے بس میں نہیں اور آخر کار اپنی ناتجربہ کاری کا اقبالی بیان بھی داغ گئے لیکن اس کے ساتھ وہ پاکستان کے ساتھ مزید بہت کچھ کرنے والے تھے۔
کہ انہیں غیر ملکی سازش نے جکڑلیا ،بعدازاں اس بیانیہ سے بھی منہ موڑلیا اور اب تک وہ اسمبلیوں سے استعفے دینے کا جو تسلسل سے راگ الاپ رہے تھے اس سے بھی تائب ہوچکے ہیں ،اب تک کی سیاسی صورتحال کسی کے بھی مفادمیں نظر نہیں آتی باالخصوص ملکی معیشت مسلسل ابتری کا شکار ہے ،پٹرول ،بجلی ،گیس اور پانی کی قیمتوں میں اضافے نے بدترین حالات پیدا کئے ہوئے ہیں ،ہرشے مہنگی ہونے پر اب تو غمی خوشی میں کسی سفید پوش متوسط شہری کی شرکت بھی عبث ہے اور بازار اس قدر گرم ہے۔
کہ خریداری کرتے ہوئے اس کے پیسنے چھوٹ جاتے ہیں ،مہنگائی کا عذاب کوئی اچانک تو آیا نہیں ،پونے چارسال کی محنت اور لگن سے سیاست دانوں کی طرف سے ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں ۔ملکی معاشی بدحالی میں سبھی سیاستدانوں نے اپنے طور پر اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالا ہے۔
یہ الگ بات کہ سیاستدانوں کی ملک کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی اس دوڑ میں عالمی ساہو کار سب سے زیادہ فائدے اٹھانے میں کامیاب ہوا ہے ،عالمی مالیاتی ادارے کی چالاکیوں اور سیاستدانوں کی باہمی لڑائیوں سے پاکستان کے محنت کش مزدور ہی خسارے میں رہے ہیں ، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی تو ایسے ہی منظر کواپنے وجدان دیکھ کر خبردار کیا تھا ،
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
علامہ اقبال جانتے تھے کہ چالاک اور مکار سرمایہ کار کی چال ہی ایسی ہوگی جس میں مات ہر حال میں مزدور کی ہوکر رہے گی اور اب حالات یہی ہیں کہ ملک کے حقیقی خیرخواہوں کے لئے زمین تنگ کردی گئی ہے ،ملک میں اشیائے خورونوش کے نرخوں میں جس تیز رفتاری کیساتھ اضافہ کیا گیا ہے۔
اس میں اب عام متوسط پاکستانی کے لئے جسم وجاں کے رشتے کو برقرار رکھنے کا مرحلہ بھی مشکل ہوگیا ہے ،بھوک کی یلغار نے کم آمدنی والوں کو ملیامیٹ کرنے کا اہتمام کردیا ہے ،عزت وآبرو کے ساتھ اب زندہ رہنے والی خواہش بھی دم توڑ رہی ہے ۔لوگ اپنی جمع پونجی روزمرہ کے اخراجات کی نذر کرتے نظر آتے ہیں تو آگے چل کر حالات کس قدر خوفناک ہونگے اس کا کسی نے کوئی اندازہ ہی نہیں لگایا۔
روزمرہ زندگی کے معاملات چلانا ہی عام شہری کے بس سے باہر ہو جائے تو پھر اس کے لئے کسی سیاسی سرگرمی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی،سیاستدانوں کی ہٹ دھرمیوں نے یہ دن دکھائے ہیں ،قوم کی یکجہتی کے نام پر اپنے مفاد کو تحفظ دینے کی روایت نے پاکستان کو کئی طرح کے سنگین مسائل میں جکڑ دیا ہے۔
ان سب کے باوجود ملک میں ایسی سیاسی افراتفری پھیلائی جارہی ہے جس سے پاکستان کی معیشت کا مزید بیڑہ غرق ہورہا ہے ،ملک میں سیاستدانوں کی خواہشوں کے طلاطم میں جلنے والی بستیوں پر انہیں ذرا بھی ترس نہیں آتا ۔
موجودہ سیاسی صورتحال پر نظر ڈالیں تو سیاستدان روز نت نیا عذاب ڈھارہے ہوتے ہیں ،یوٹرن پہ یوٹرن لیتے ہوئے کہیں اسمبلیاں تحلیل کی جارہی ہیں تو کہیں اسمبلیوں میں اپوزیشن کو واپس لانے والوں کی نیک نیتی اچانک یوٹرن لے کر انکے استعفے منظور کرکے نئی غیر یقینی صورتحال پیدا کرتی ہے۔
ایسے حالات میں پھر سٹاک ایکسچینج میں مندی پر 200ارب روپے ڈوب جانے کی خبر بھی معمول کی کارروائی قرار دی جاتی ہے ،جو ہر بات کو معمول کا حصہ قرار دیتے ہیں ان کے لئے تو شاعر عبید اللہ علیم خبر سنارہے ہیں کہ ع
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا۔