تدریسی عظمت کا سفر: ایک فکری کانفرنس کی دل آویز روداد

تحریر: عزیز الرحمٰن
26 مئی کی صبح، کزن کی وفات کا صدمہ دل پر ایک بھاری پتھر کی مانند تھا۔ ذہن غم میں ڈوبا ہوا اور جسم تھکن سے چور تھا۔ ایسے میں جامعہ کی بین الاقوامی تدریسی کانفرنس کی میڈیا کوریج کی ذمہ داری ملی جو ابتدا میں ایک بوجھ سے کم نہ لگی۔ مگر دل میں فرض شناسی کی چنگاری اور ادارے سے وابستگی کا احساس کچھ یوں جاگا کہ غم اور ذمہ داری نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں قدم رکھتے ہی فضا کی سنجیدگی، علم کی روشنی اور مقصد کی سچائی نے دل کو عجب سکون عطا کیا۔ ہر چہرہ روشن، ہر نگاہ پرعزم اور ہر موجود فرد ایک عظیم تعلیمی مقصد سے جُڑا ہوا محسوس ہوا۔ یہ محض ایک رسمی اجتماع نہ تھا بلکہ ایک فکری تحریک تھی۔ایسی تحریک جو تدریس کے مستقبل کو سنوارنے، اساتذہ کو بااختیار بنانے اور ٹیچر ایجوکیشن پروگرامز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سنجیدہ کوشش تھی۔تقریب کا آغاز قومی ترانے سے ہوا جس نے حب الوطنی کے جذبے کو تازہ کیا۔ تلاوتِ قرآنِ مجید اور نعتِ رسولِ مقبول ﷺ نے روحانی فضا کو مزید معطر کیا۔ ڈاکٹر طوبیٰ سلیم کی خوش گفتار نظامت نے تقریب کو وقار بخشا اور ہر لمحہ نظم و ضبط کا مظہر رہا۔اسٹیج پر موجود شخصیات گویا علم و فکر کے درخشاں ستارے تھیں:پروفیسر ڈاکٹر سید انوار الحسن گیلانی (HEC کے کوالٹی ایشورنس کنسلٹنٹ)،پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود (وائس چانسلر، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، چیئرمین NACTE اور ریکٹر ورچوئل یونیورسٹی)،پروفیسرڈاکٹر منور مرزا (پنجاب یونیورسٹی)،ڈاکٹر شمسہ عزیز (سیکرٹری NACTE)،ڈاکٹر نوید سلطانہ (چیئرپرسن، شعبہ ثانوی اساتذہ تعلیم)،بین الاقوامی سطح پر اس تقریب کو عزت بخشی ترکیہ کی انادولو یونیورسٹی کے ممتاز ماہرِ تعلیم پروفیسر ڈاکٹر مہمت فرات نے، جنہوں نے آن لائن شرکت کے ذریعے اس اجتماع کو علمی وسعت اور عالمی تناظر سے ہمکنار کیا۔یہ کانفرنس صرف تقاریر کا مجموعہ نہ تھی بلکہ ایک فکری بیداری، تعلیمی تحریک اور تدریسی عظمت کی بازیافت کا سنگِ میل تھی۔ مقررین کی گفتگو بصیرت افروز اور عملی تجاویز سے بھرپور تھی۔ڈاکٹر گیلانی نے استاد کو شخصیت سازی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے جامع، ہم آہنگ اور پائیدار تعلیمی پالیسی کی ضرورت پر زور دیا۔ڈاکٹر ناصر محمود نے لائسنسنگ، شناخت اور ادارہ جاتی وقار کو استاد کی پیشہ ورانہ ترقی کی بنیادیں قرار دیا اور فرمایا کہ جب تک ان اصولوں کو رائج نہیں کیا جاتا، تعلیم صرف ایک پیشہ رہے گی، قومی خدمت نہیں بن سکے گی۔ڈاکٹر نوید سلطانہ نے کانفرنس کو یونیورسٹی کے وژن کا عملی عکس قرار دیا جو اساتذہ کی تربیت کو تہذیبی تسلسل اور قومی ترقی کی کلید سمجھتا ہے۔تمام مقررین کا متفقہ مؤقف تھا کہ پاکستان کو عالمی تجربات سے سیکھنے کی ضرورت ہے تاہم مقامی سماجی، ثقافتی اور تعلیمی تناظر کے مطابق اپنے معیارات بھی خود وضع کرنے ہوں گے۔اختتامی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر ناصر محمود نے کی جبکہ مہمانِ اعزاز پروفیسر ڈاکٹر قاضی وسیم (وائس چانسلر، کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی) تھے۔ دیگر نمایاں مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر ساجد علی (آغا خان یونیورسٹی)، ڈاکٹر شمسہ عزیز اور ڈاکٹر نوید سلطانہ شامل تھے۔پروفیسر قاضی وسیم نے کہا کہ اچھا استاد وہی ہے جو خود سے سیکھنا سیکھ لے، کیونکہ جو خود سیکھتا ہے وہی حقیقی معنوں میں سکھانے کا حق ادا کرتا ہے۔ان کے الفاظ سامعین کے دل میں اترتے چلے گئے۔ایسا استاد ہی طلبہ کی بہتر رہنمائی کر سکتا ہے۔یہ بین الاقوامی کانفرنس نیشنل ایکریڈیٹیشن کونسل فار ٹیچر ایجوکیشن (NACTE) اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقد ہوئی، جسے ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ اسپانسرنگ اداروں میں گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن (GPE-KIX)،ضیاء الدین یونیورسٹی،ورچوئل یونیورسٹی،یونیورسٹی آف گجرات اور سرحد یونیورسٹی شامل تھے۔ان اداروں کا تعاون معیاری تعلیم کے فروغ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔کانفرنس میں پیش کی گئی تحقیق پر مبنی سفارشات میں اساتذہ کی بھرتی، تربیت، انڈکشن، لائسنسنگ اور ترقی جیسے کلیدی امور پر مدلل اور قابلِ عمل تجاویز شامل تھیں۔ اس علمی اجتماع کا مقصد ایک ایسا اشتراکی پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا جہاں پالیسی ساز، محققین اور ماہرینِ تعلیم باہم مل بیٹھ کر دیرپا اور مؤثر حکمتِ عملیاں تشکیل دے سکیں۔ کانفرنس کے نتیجے میں اساتذہ کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک جامع روڈ میپ تیار کیا گیا ہے جس پر صوبائی و قومی سطح پر مشاورت کی جائے گی۔یہ سفارشات نہ صرف تدریسی عمل کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں گی بلکہ اساتذہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ، تدریسی معیار کی بہتری اور نظامِ تعلیم کی مجموعی اصلاح میں بھی مؤثر کردار ادا کریں گی۔ ان سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت، تعاون اور مربوط حکمتِ عملی ناگزیر ہوگی۔کانفرنس ”بہتر اساتذہ: بہتر کل کی ضمانت ہیں ” جیسے ولولہ انگیز پیغام کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی مگر اس کے نقوش ذہنوں اور دلوں پر گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑ گئے۔تحریر نگار بطورِ خاص اس امر کی نشان دہی ضروری سمجھتا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے اس کانفرنس میں بیک وقت تین اہم اداروں کی نمائندگی کی اور اپنی بصیرت، قیادت اور متحرک شرکت سے اس تقریب کو صرف ایک اجلاس نہیں بلکہ ایک نئی علمی روایت میں ڈھال دیا۔ ان کی شخصیت ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ جب استاد علم، وقار اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہو تو وہ صرف درس نہیں دیتا بلکہ قوم کی فکری سمت متعین کرتا ہے۔اسی طرح ڈاکٹر نوید سلطانہ، ڈاکٹر شمسہ عزیز اور ڈاکٹر طوبیٰ سلیم کی منظم کوششیں بھی تحسین کے لائق ہیں۔ ان تینوں قابلِ فخر خواتین نے کانفرنس کے دونوں دنوں میں بھرپور شرکت، تنظیمی صلاحیت اور باریک بینی سے نگرانی کے ذریعے تقریب کو کامیابی کی بلندیوں تک پہنچایا۔ بلا شبہ، اس شاندار کانفرنس کی کامیابی کا سہرا ان کے سر بھی جاتا ہے۔