ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
کہنے کو تو یہ ایک شعر ہے لیکن یہ حقیقت میں ایک استعارہ ہے جسے میں نے بہت سے نفوسِ قدسیہ کی صورت میں زمین پر دیکھا ہے جی ہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے جو ایک دانے کی صورت میں ہوتے ہیں لیکن یہی دانے جب خاک میں ملتے ہیں تو گلِ گلزار بنتے ہیں۔
وہ محنت کرتے کرتے اوجِ ثریا تک پہنچ جاتے ہیں جہاں کسی کا وہم و گماں بھی نہیں ہوتا
اگر آپ میری بات سے متفق نہیں تو میں آپ کو اس کی ایک زندہ مثال دکھاتا ہوں
ٹانک کے ایک گاؤں میں بسنے والے حاجی سید افضل بیٹنی کے گھر میں 1968ء میں ایک ستارہ چمکا انہوں نے اس کا نام شیر افضل رکھا حالانکہ بیٹنی قبیلہ میں اور بھی سیکڑوں ستارے روشن ہوئے ہوں گے لیکن ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروسہ
لیکن حاجی صاحب نے اپنے اس شہزادے کو علوم عالیہ سے روشناس کرانے کا فیصلہ کرلیا اور اس شیر افضل نامی بیٹے کی مکمل آب یاری کی رفتہ رفتہ خاک میں مل کر یہ بچہ گلِ گلزار جا بنا حاجی صاحب نے ابتدائی تعلیم کے لیے اپنے آبائی شہر ٹانک میں ہی مولانا فتح خان اور مفتی محمد سیف اللہ شیخ الحدیث جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کی خدمت میں اس بچے کو داخل کروایا یہاں سے اس بچے نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔
رفتہ رفتہ علمی پیاس بڑھنے لگی تو یہ بچہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دارالعلوم دیوبند کے فاضل حضرت قاضی عبد الکریم صاحب کلاچی کی خدمت میں پہنچ گیا علوم الہیہ سے خود کو سیراب کرتا رہا اور پھر یہاں سے آگے لکی مروت میں واقع معروف دینی ادارے جامعہ حلیمیہ درہ پیزو میں شیخ الحدیث مولانا انور صاحب موجودہ MNA اور شیخ الحدیث مولانا محسن خان شہید سے علومِ نبوت اپنے سینے میں سمونے جا پہنچا۔
(پٹھان علما و طلبہ میں تب باقاعدہ مروجہ درسِ نظامی کی ترتیب نہیں تھی کوئی کتاب کسی عالم سے کوئی کسی عالم سے پڑھی جاتی تھی خال خال اب بھی کہیں کہیں پہ ایسی ترتیب ہے لیکن اب تو باقاعدہ وفاق المدراس کے نصاب کے عین مطابق تعلیمی سلسلہ چلتا ہے )ابھی تشنگی باقی تھی تو علم کی طلب آپ کو ٹانک کے دور دراز علاقے سے اٹھا کر شہرِ لاہور کے ہر دل عزیز ادارے جامعہ اشرفیہ لاہور میں لے آئی کہاں دیہات کا پلا پوسہ بچہ اور کہاں لاہور شہر کی رنگینیاں لیکن اس طالب علم شیر افضل نے اپنی ساری توجہ اپنے مقصد پر مرکوز رکھی یہاں وہ جبال العلم کی سرپرستی اور نگرانی میں علم کی بوندیں حاصل کرتے رہے اور وفاق المدارس العربیہ کے تعلیمی بورڈ میں نمایاں ممتاز پوزیشن حاصل کی ۔ان جبال العلوم میں وہ معروف ہستیاں شامل تھیں جن کے مشکیزے بھرنے کو دنیا ترستی تھی جن کا سکّہ چہار دانگِ عالم میں چلتا تھا شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک کاندھلوی ، حضرت الشیخ موسیٰ روحانی البازی اور حضرت صوفی محمد سرور رحمہم اللہ جیسی عبقری شخصیات کے قدموں میں بیٹھ کر یہ خود کو سیراب کرتے رہے اور اپنی علمی استعداد میں ترقی کے زینے طے کرتے رہے ان مشائخ کے زیر سایہ تعلیم ، تربیت اور ادب سیکھتے رہے۔
اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان مشائخ نے سید افضل کے اس ہونہار بیٹے شیر افضل کے سر پر اعتماد کا ہاتھ رکھتے ہوئے انہیں دستار فضلیت بندھوائی اور اسے مولانا شیر افضل کا لقب دے کر دعاؤں سے رخصت کردیا۔
علوم و فنون کے ساتھ ساتھ رئیس العاملین حضرت الشیخ موسیٰ روحانی البازی نے علمِ عملیات کی اجازت سے بھی نوازا جی ہاں وہی حضرت موسی روحانی البازی جن کا تعویذ تیر بحدف ثابت ہوتا تھا۔
علوم تفسیر کے لیے گوجرانوالہ کی معروف دینی درس گاہ جامعہ نصرة العلوم کا رخ کیا جہاں فاضلِ دیوبند اور شیوخ التفسیر امامِ اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر اور شیخ صوفی عبدالحمید سواتی جیسی مقدس ہستیوں سے درس تفسیر پڑھی اب حاجی سید افضل خان کا یہ شہزادہ علوم و فنون کا حقیقی ستارہ بن کر چمکنے لگ گیا ہر باپ کو اسی دن کا انتظار ہوتا ہے اسی کے لیے تو شاعر نے کہا تھا ع بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا اور اپنی روحانی اصلاح کے لیے قطب الاقطاب خواجہ خواجگان حضرت خواجہ خان محمد رحمہ اللہ کے دامن سے لپٹ گئے اور روحانی منازل طے کرتے رہے۔
فراغت کے بعد ٹانک میں ایک غیر معروف جگہ عمر اڈا وہاں سے اپنی تدریسی خدمات شروع کیں اور پھر 1990ء میں ایک سال اندرون و بیرون تبلیغی سفر کے لیے مولانا جمشید صاحب استاد و مقیم مدرسہ عربیہ رائے ونڈ کے حکم پر نکلے اور اسی سفر میں فریضہ حج بھی ادا کیا۔
واپسی پر انتہائی محنت ، دل جمعی ، حکمت عملی اور حسن تدبیر کے ساتھ ایک بار پھر اپنے کام میں جت گئے
اس غیر معروف و غریب علاقے عمر اڈا ٹانک جہاں بسیار تلاش کے باوجود کوئی ناظرہ خواں بھی مشکل سے ملتا تھا وہاں آپ نے علوم کے دریا بہا دیے الحمدللہ آج حفاظ قراء علما اور مفتیوں کی تعداد کا شمار ناممکن ہے 22 سال تک اسی علاقے عمر اڈا میں ایک بے نام سے مدرسے کے مہتمم و مدرس بن کر بے لوث خدمات سرانجام دیتے رہے اگر میں یوں کہوں تو بےجا نہ ہوگا۔
اس ادارے کی بنیادوں میں مولانا شیر افضل کا صرف پسینہ ہی نہیں بلکہ خون بھی شامل ہے آپ نے بھی تو نہ دن دیکھا نہ رات نہ سردی کا خوف اور نہ گرمی کی پروا بس اخلاص و للہیت سے یہ اہتمام اور تدریسی سلسلہ جاری و ساری رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اکابرین رحمہ اللہ کے حکم پر ٹانک مرکز کا نظم بھی سنبھالتے رہے اور اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔
آپ کی علمی دھاک پورے دو ضلعوں میں بیٹھ گئی لوگ اپنے پنچایتی سلسلوں کے لیے بھی أپ ہی کی طرف رجوع کرنے لگے اور آپ بغیر اجرت کے یہ کام سر انجام دیتے رہے اور آپ جس فیصلے میں بھی بطور چیف منصف شامل ہوتے وہ فیصلہ بفضل خدا کامیابی کے ساتھ طے پا جاتا22 سالہ اس بے لوث خدمت کے بعد 2012 میں اپنے آبائی وطن کو خیر آباد کہہ کر قریشی موڑ ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب ذاتی زرخرید زمین پر مدرسۃ البنات کا آغاز کیا اور اس میں تادم حیات فریضہ تدریس سر انجام دیتے رہے ترمذی شریف جیسی معرکۃ الارا کتاب کی تدریس آخر وقت تک نصیب ہوئی۔
مولانا شیر افضل کیا تھے :
مرد درویش ، حق گو ، خوش اخلاق ، خوش اسلوب ، عاجزی کا منبع ، اخلاص کا پیکر ، صبر و تحمل کا پہاڑ اور ڈھیروں خوبیوں کا مجموعہ تھے
ان کی لسان ہمہ وقت رب العالمین کی شکر گزاری میں مگن رہتی تھی ان کا دماغ نفرت و انتقام سے پاک رہتا تھا حق پرستوں کی صفوں میں ان کا شمار رہتا تھا۔
زیادہ دن نہیں گزرے یہاں کچھ لوگ رہتے تھے
جو دل محسوس کرتا تھا علی الاعلان کہتے تھے
وہ محبتوں کے امین ، علم و عمل کا نمونہ ، قافلہ حق کے جاں باز سپاہی اور علوم و فنون کی شمع روشن کیے ہوئے تھے۔ بہترین مہمان نوازی ان کا عمدہ وصف تھا۔
انہوں نے کسی بھی سیاسی عمل میں تو حصہ نہیں لیا لیکن لوگوں کے دلوں پہ حکمرانی کی بچے بوڑھے عورتیں جوان سبھی آپ کی خدمات کے دل سے معترف ہیں وہ غریبوں کے سچے ہمدرد تھے ان کی محبتوں اور خدمتوں کا ایک لازوال باب ہے جو کبھی بھی بند نہیں ہوسکتا اور یہ سب اعمال اور علماء طلبہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
ان کی چال ڈھال تو مت پوچھیے ہمیشہ سر جھکا کر انکساری سے چلنا مجمع میں چلتے ہوئے پگڑی کے شملہ سے چہرے کو ڈھانپ لینا اور نماز ہمیشہ جامع مسجد میں اور جماعت کا اہتمام کرنا ان کی عادت تھی وہ اذان فجر کے متصل گھر کے صحن میں جھاڑو خود لگاتے تھے اور روزانہ غسل سے ترو تازگی حاصل کرنا معمول تھا ان کا ہر نماز کے لیے الگ سے تازہ وضو بنانا گرم یا ٹھنڈے پانی کی پروا کیے بغیر ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی
زندگی میں دو حج کیے اور اندرون و بیرون تبلیغی اسفار بھی کیے جہاں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کیں جہاں طلبہ و طالبات کو علوم نبویہ سے بہرہ ور کیا وہیں عام لوگوں اور غیر مسلموں تک اسلام کی آواز پہنچانے کے لیے عملی دعوت کے میدان میں بھی پیچھے نہ رہے ان کی تڑپ اور لگن تھی کہ کسی طرح دین بے زار لوگ راہ راست پر آجائیں جہاں وہ نمازوں کا اہتمام کرتے تھے وہیں تہجد ، اشراق ، چاشت اور اوابین کی بھی کوشش کرتے تھے۔
مطالعہ میں اتنا انہماک ہوا کرتا تھا کہ کھبی کھبار یہ بھول جاتے کہ میرے ساتھ تو مطالعہ کے لیے طلباء بھی بیٹھے ہوئے تھے اور اچانک سر اٹھاتے اور فرماتے کہ تم ابھی تک بیٹھیں ہو۔
شریعت کے خلاف کوئی بات آجاتی تو خود اس کا توڑ فرماتے مثلاً بعض اوقات لوگ کا یہ عقیدہ ہوتا کہ درختوں کو اس لیے نہیں کاٹتے کہ یہ بزرگ درخت ہے تو ایسے عالم میں وہ خود کلہاڑی لے کر نکل جاتے اور تب سکون سے بیٹھتے جب درخت کاٹ چکے ہوتے۔
ان کی سب سے بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ اس علاقے میں دیوبند کے علاؤہ کسی فرقے نے سر نہیں اٹھایا حالانکہ بہت فرقوں کے لوگ وہاں رہتے تھے مگر کسی کی جرات نہ تھی کہ وہ کھل کے اپنے عقیدے کا اظہار کرسکیں
یکم نومبر کو مولانا شیر افضل اپنے بیٹے حضرت مولانا ابراھیم کی بارات میں جاتے ہوئے کار حادثے میں اپنی دو عزیزاؤں کے ہمراہ صرف 54 سال کی عمر جام شہادت نوش کر گئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
انہوں نے ورثے میں کوئی مربعے یا بنگلے نہیں چھوڑے بلکہ ہزاروں شاگرد قرآن و حدیث سے آراستہ کرکے چھوڑے پسمان دگان میں چار بیٹے اور چھ بیٹیاں چھوڑیں تمام اولاد بحمدللہ حفاظ و حافظات عالم و عالمات ہیں۔
حضرت کا پورا گھرانہ مکمل طور پر دین دار ہے حتیٰ کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی شادیاں بھی عالمات سے کروائیں تاکہ ان کے گھرانے میں دین داری میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکے۔
ان کی وفات سے نا صرف بیٹنی قبیلہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا بلکہ ہزاروں حافظات ، عالمات ، فاضلات ، حفاظ ، علما اور مفتیان کرام کو سوگوار چھوڑا بلکہ ان کی وفات پر ہر دین دار افسردہ اور اشک بار دکھائی دیا بالکل شارٹ نوٹس پر نماز جنازہ ادا کی گئی لیکن ہزاروں افراد کا جم غفیر عمر اڈہ ٹانک میں امڈ آیا اور اپنے اس محسن سے أخری وفا کی نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحب زادے حضرت مفتی محمد اسماعیل فاضل جامعہ خیر المدارس نے پڑھائی انہیں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ اس مرد قلندر کو منوں مٹی تلے دفن کردیا۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے