پاکستان میں وہ سب کچھ ہورہاہے جو احاطہ عقل میں لانا مشکل ہے ۔کسی دور میں کچھ اقدار باقی تھیں اور سیاسی لوگوں میں رکھ رکھائو بھی تھا ۔ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنے والے سیاستدان بھی تھے ۔جھوٹ پکڑے جانے پر شرمندہ ہو جانے والی روایت بھی زندہ تھی ۔
کبھی بھی اس قدر سفاکی نہیں دیکھی تھی جو اب دیکھنے کو مل رہی ہے ۔سیاست میں کچھ مبالغہ آرائی کا تو سنا تھا مگر سفید جھوٹ بولنے کی روایت اب دیکھنے کو مل رہی ہے ،اس سے بھی زیادہ شرمناک بات تو یہ ہے کہ سیاستدان اپنے کسی جھوٹ پر ڈٹ کر مزید کئی جھوٹ بولتا ہے اور اسکے بعد بھی عوام کا اسے معتبر سمجھنے والی بات ہماری سمجھ سے تو بالا تر ہے ،توشہ خانہ کیس کو ہی لے لیں ابھی تک سیشن کورٹ سے لیکر ہائیکورٹ تک یہ فیصلہ ہو رہا ہے کہ یہ کیس قابل سماعت بھی ہے کہ نہیں حالانکہ اس کیس کا اب تک تو فیصلہ ہونا چاہئے تھا ۔ توشہ خانہ کیس کا ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ملک میں حصول انصاف کا حق صرف مالدار یا خواص کو ہے، صرف وہی مقدمات کو طول دیکر مخالف کو قبروں تک پہنچانے کا ہنر جانتے ہیں ۔
اس وقت ایک کیس اور بھی ہے جو میڈیا پر بھی نمایاں طور پر موجود ہے ۔جو کہ ایک غریب اور معصوم بچی رضوانہ کا ہے اس میں تاحال نامزد ملزمہ شامل تفتیش ہی نہیں ہوئی اور اسی گھر میں (جائے وقوعہ )رہنے والے جج اس ظلم و بر بریت سے لا علم اور معصوم گردانے جا رہے ہیں لہٰذا وہ کسی ایف آئی آر یا پولیس ضمنی کا حصہ نہیں، ان سب کے باوجود ہمارا معاشرہ خود کو بہت مہذب سمجھتا ہے۔
پی ڈی ایم کی مہمان حکومت نے کچھ زیادہ ہی انتہائی تیز رفتاری سے قانون سازی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور اپنے آخری دنوں میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں سے دھڑا دھڑ بل منظور کروانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ ارکان پارلیمنٹ بتا رہے ہیں کہ انھیں بلز کی کاپیاں ہی نہیں دی جا رہیں۔
ارکان پارلیمنٹ کا موقف ہے کہ نئی قانون سازی کے بلز متعلقہ کمیٹیوں کو بھیجے جا رہے ہیں نہ نئی قانون سازی پر ایوان میں بحث کرائی جا رہی ہے ۔صرف ایک روز میں قومی اسمبلی نے ایک درجن سے زائد بل منظور کیے اور بعض تو ایسے بل بھی پاس کروائے گئے جو ایجنڈے پر موجود ہی نہیں تھے۔
جمعرات 27 جولائی کو قومی اسمبلی نے 24 بل منظور کیے جبکہ جمعہ 28 جولائی کو قومی اسمبلی نے 29 بل منظور کیے، گزشتہ روز بھی قومی اسمبلی سے 6 بل پاس کروائے گئے۔کافی دنوں سے 9 مئی کو اسمبلی تحلیل کی خبر گردش میں تھی جس کا اب وزیراعظم نے اعلان بھی کردیا ہے۔
چاہیںے تو یہ تھا کہ مزید قانون سازی آنے والوں پر چھوڑ دی جاتی مگر اسکے باوجود سابقہ چند دنوں میں بل منظور کرانے کا سلسلہ مزید تیز ہوا۔قومی اسمبلی اور سینیٹ سے انتہائی سرعت کے ساتھ منظور ہونے والے بل کسی رکن اسمبلی نے بھی پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ،اسمبلی میں چند منٹ پہلے مجوزہ بل کے خلاف تقریر کرنے والے اچانک اس بل پر ووٹنگ کے موقع پر حامی نظر آ رہے ہوتے ہیں ،ایسے لگتا ہے یہ سارا عمل جادو نگری میں ہو رہا ہے حتیٰ کہ مجوزہ بل کی پارلیمنٹ کے باہر مخالفت کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی بھی اسمبلی میں آکر عین وقت پر حکومت کے بل کی حمایت کرتے نظر آئے ۔
بظاہر پارلیمنٹ میں مجوزہ قانون سازی کے عمل پر احتجاج بھی کیا جاتا ہے اور برسر عام یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہمیں اعتماد میں لئے بغیر یہ بل پیش کیا گیا پھر یہ اس حکومت کے پاس ایسی کیا” گیدڑ سنگھی “ہے جسے سونگھ کر مسودہ قانون پڑھے بغیر یہی ارکان اس کی عملی حمایت کرکے منظورکروا دیتے ہیں ۔
صدیوں کے تجربات و مشاہدات یہ پیغام دیتے ہیں کہ آئین، قانون،مساوات اور رواداری کے بغیر کسی معاشرے و ملک کی ترقی و استحکام ممکن نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی بھی وقت ہے کہ حکمران و اشرافیہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور ملک میں سب کے لیے انصاف پر مبنی نظام قائم کرنے کے جتن کریں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ جس جادو کی چھڑی سے یہ وفاداریاں تبدیل کرانے کا کھیل کھیلتے جارہے ہیں وہی جادو کی چھڑی انکے کسی حریف کے پاس بھی جاسکتی ہے ۔