سہیل آفریدی کی نامزدگی، سابق فاٹا کے لیئے تاریخی قدم

تحریر : عائشہ وزیر۔
ایک قبائلی اور پاکستان کے محبِ وطن شہری کے طور پر، میرے لیے یہ لمحہ نہایت اہم ہے کہ میں اپنے خیالات اُس تاریخی موقع پر شیئر کروں جب سہیل آفریدی کو خیبر پختونخوا (کے پی) کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا گیا۔ میں پشتون قوم پرست نہیں ہوں، نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں، مگر چونکہ میرا تعلق قبائلی علاقے سے ہے، اس تبدیلی کو میں ذاتی طور پر محسوس کرتی ہوں۔ آفریدی کا تعلق سابق فاٹا کی خیبر ایجنسی سے ہے، اور اُن کی یہ کامیابی صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے اُمید کی ایک نئی کرن ہے۔ اُن کا انتخاب قبائلی عوام کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے جو ہماری تاریخ میں ایک منفرد سنگ میل ثابت ہوگا۔
انقلابی تبدیلی: اشرافیہ سے نجات کا لمحہ۔
سہیل آفریدی کا انتخاب خاص طور پر سابق فاٹا کے لیے غیر معمولی ہے، جہاں سیاست ہمیشہ بااثر اور دولت مند خاندانوں کے ہاتھ میں رہی ہے۔ مگر آفریدی کا ابھرنا اُن روایتوں کو توڑنے کے مترادف ہےـ وہ ایک سادہ اور متوسط پس منظر سے اُبھرے ہیں، جو عام قبائلی لوگوں کے تجربات کی عکاسی کرتا ہے۔ اُن کی تقرری ایک واضح پیغام ہے کہ قیادت اب صرف اشرافیہ تک محدود نہیں بلکہ عام عوام سے بھی اُبھرسکتی ہے۔
بطور قبائلی، میرے لیے یہ فخر کا لمحہ ہے کہ ہمارا نمائندہ صوبے کی اعلیٰ قیادت میں موجود ہے۔ یہ صرف ایک نئے لیڈر کا تقرر نہیں، بلکہ ایک تاریخی لمحہ ہے جب عام قبائلی عوام کو آخرکار وہ سیاسی نمائندگی مل رہی ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔
سابق فاٹا کی خواتین کے لیے امید کی نئی کرن۔
سہیل آفریدی کی قیادت کا سب سے اہم پہلو یہ ہوگا کہ وہ سابق فاٹا کی خواتین کے مسائل کو کس طرح حل کرتے ہیں۔ ایک قبائلی کے طور پر میں نے اپنی آنکھوں سے اُن مشکلات کو دیکھا ہے جن سے ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں روزانہ دوچار ہوتی ہیں۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ہمارے قبائلی معاشرے میں عورتوں پر ظلم و زیادتی عام ہے۔ کبھی بھائی کے ہاتھوں، کبھی شوہر یا والد کے ذریعے۔
سہیل آفریدی کا تقرر اصلاحات کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ وہ علاقے کی ثقافتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایک ایسا متوازن راستہ اختیار کریں گے جو روایات کا احترام کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اُن کی قیادت میں یہ خواہش ہے کہ قبائلی خواتین کی آواز سنی جائے، اُنہیں قانونی تحفظ، تعلیم، صحت کی سہولیات، اور گھریلو تشدد سے نجات حاصل ہو۔
میرے خیال میں آفریدی کی قیادت قبائلی خواتین کے لیے انصاف اور سکون کا نیا دور لاسکتی ہے، اور شاید پہلی بار اُن کے بنیادی حقوق تسلیم کیے جائیں۔
ترقی اور حکمرانی: تبدیلی کی پکار۔
ایک قبائلی کے طور پر، میرا دل دکھتا ہے جب میں دیکھتی ہوں کہ ہمارا علاقہ ترقی کے لحاظ سے کتنا پیچھے رہ گیا ہے۔ دہائیوں سے سابق فاٹا کو نظرانداز کیا گیا، اور 2018ء میں خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے باوجود حالات میں بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے، صحت کی سہولتیں ناکافی ہیں، اور تعلیم کا نظام بہت پسماندہ ہے۔
اب سہیل آفریدی کے کاندھوں پر یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خلا کو پُر کریں۔ قبائلی عوام کے لیے اب صرف نعروں کا وقت نہیں ـ بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آفریدی طویل المدتی پالیسیوں کے ذریعے تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر، اور معیشت میں حقیقی تبدیلی لائیں گے۔
چیلنجز بڑے ہیں، مگر آفریدی کے پس منظر اور علاقے سے اُن کے گہرے تعلق کی وجہ سے یہ اُمید پیدا ہوتی ہے کہ وہ ان مسائل کو سمجھ کر مؤثر اقدامات کریں گے۔
نئی قومی شناخت: فاصلے مٹانے کا وقت۔
سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا وزیر اعلیٰ بننا پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ پیغام ہے کہ قبائلی علاقے اب نظرانداز نہیں کیے جا سکتے، اور اُن کے لوگ بھی ملک کے مرکزی دھارے کا حصہ ہیں۔ سالہا سال قبائلی علاقوں کی آواز دبائی گئی، مگر آفریدی کا عروج اس خاموشی کے خاتمے کی علامت ہے۔
بطور پاکستان پرست، میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک ایسا قدم ہے جو ملک کے تمام علاقوں اور قومیتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد دے گا۔ آفریدی کی قیادت ایک ایسے پاکستان کا تصور پیش کرتی ہے جہاں کوئی بھی خطہ یا طبقہ نظرانداز نہ ہو۔
نتیجہ: سابق فاٹا اور کے پی کے لیے ایک نیا سویرا۔
قبائلی علاقوں سے گہرا تعلق رکھنے والے شخص کے طور پر، میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ سہیل آفریدی کا بطور وزیر اعلیٰ تقرر سابق فاٹا کے لیے ایک تاریخی موڑ ہے۔ اُن کا اقتدار میں آنا اُس تبدیلی کی علامت ہے جس کا ہم برسوں سے انتظار کر رہے تھےکہ بہتر حکمرانی، شمولیت اور انصاف کی تبدیلی ہو۔
یہ صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ ایک ذاتی فتح ہے اُن سب کے لیے جنہیں نظام نے طویل عرصے تک نظرانداز کیا۔ سہیل آفریدی کی قیادت میں ہمیں امید ہے کہ قبائلی عوام، خصوصاً خواتین، کو وہ امن، وقار اور برابری حاصل ہوگی جس کے وہ حق دار ہیں۔
آفریدی کی حکومت کو اُن حقیقی اور پائیدار تبدیلیوں سے پرکھا جائے گا جو وہ لائیں گے،نہ صرف صوبے کے لیے بلکہ اُن قبائلی عوام کے لیے جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ واقعی سابق فاٹا کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔
(کالم نگار قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں اور قومی ادارہ برائے تاریخی و ثقافتی تحقیق کے لیئے ریسرچ ورک کرتی ہیں)