کالم و مضامین/Articles

کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے جا رہے ہیں

تحریر۔ راجہ شاھد رشید

ہمارے ماضی کے اور موجودہ حکمران شاید بولنے سے پہلے تولتے یعنی سوچتے بالکل بھی نہیں ہیں۔ یہ ہمیشہ سے ہی ایسے ایسے بلند و بانگ دعوے کرتے چلے آ رہے ہیں جو کسی طور پہ بھی درست ثابت نہیں ہوتے۔ ان کے وزیرِ تضادیات و جھوٹیات اور خوشامدی مشیرِ بیانات اپنی ہر حاضری میں ہر بیان میں یہ جملہ ضرور بولتے ہیں اور بار بار بولتے ہیں کہ معیشت مضبوط ہو رہی ہے جبکہ معروف ماہر اقتصادیات و سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا فرماتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غربت کی شرح پچاس فیصد تک جانے کے امکانات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 12.5 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ سوچنا تو یہ ہے کہ طویل مدت سے اقتدار میں رہنے والے کرتا دھرتاٶں کی بیرون ملک جائیدادیں تو بڑھ رہی ہیں لیکن یہ ایک عام پاکستانی غریب سے غریب تر ہو کر بھاری سودی قرضوں کا بار گراں سر پہ اُٹھائے آج بھی مہنگائی و غربت اور مسائل و مشکلات تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے۔ سینئر صحافی و اینکر پرسن، برادرم و محترم محمد مالک نے گزشتہ دنوں بتلایا کہ پاکستان کا قرضہ 94 کھرب سے بڑھ چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق حکومت روزانہ پچیس ارب روپے قرضہ لے رہی ہے۔ اس وقت قرضہ جی ڈی پی کا 80 فیصد ہے جسے قانوناً جی ڈی پی کا 50 فیصد پر لانا لازم و ملزوم تھا، یہ حال ہے ہماری مالی صورتحال کا۔ پیارے پاکستان میں اگر قرضے لینے کے ضمن میں ہم اپنے حکمرانوں کے کارنامے ادوار کے اعتبار سے دیکھیں اور بغور جائزہ لیں تو یہ تاریخ بھی تلخ ترین ہے۔ سب سے زیادہ قرضے میاں محمد نواز شریف کے آخری عہدِ حکومت میں لیے گئے، اس طرح ریکارڈ ٹوٹے کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی شاید وہ قرض اتار نہ پائیں۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد بانی کو اقتدار ملا تو انہوں نے بھی کافی قرضے لیے۔ پھر رجیم چینج کے بعد تجربہ کار شہباز شریف آ ٹپکے، بڑے میاں تو بڑے میاں ، چھوٹے میاں سبحان اللہ کے مصداق چھوٹے بھائی بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلتے رہے جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں پاکستان کے غریب عوام۔ صد افسوس کہ یہ لوگ ابھی بھی باز نہیں آئے۔ خبر چھپی ہے کہ ”پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کے لیے دوسرے اقتصادی جائزہ پر مذاکرات رواں ماہ کے آخری عشرے میں شروع ہوں گے۔ عالمی ادارے کا جائزہ مشن 25 ستمبر کو پاکستان پہنچے گا“۔ وزارت خزانہ نے شاید فخراً یہ فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات یقینا کامیاب رہیں گے اور آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری سے پاکستان کے لیے اگلی قسط جاری ہونے کا امکان ہے۔ ان کو کون سمجھائے کہ ہم پہلے سے ہی قرضوں کی گہری دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور آپ قرضوں پر قرضے لیے جا رہے ہیں، کل کو یہ قرضے واپس کیسے کریں گے۔ مشیرِ خزانہ KPK مزمل اسلم کہتے ہیں کہ پاکستان کی غربت افریقی ممالک کے قریب جاتی نظر آ رہی ہے، صرف ایک ماہ میں شہباز شریف حکومت نے 1830 ارب روپے کا قرضہ لے لیا۔ مجموعی طور پر پاکستان کا قرض 78,000 کے قریب پہنچ چکا ہے۔ سوا تین سال میں 34,500 ارب کا قرض لے چکے ہیں۔ جب یہ حکومت میں آئے تھے تو 43500 ملک کا قرض تھا۔ یہ جو قرضے واپس کرنے آئے تھے انہوں نے مزید قرضے لینے کی ایک تاریخ رقم کر دی ہے۔ محترمہ شاندانہ گلزار خان کہتی ہیں کہ چوکیدار چوروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ مجھے انتہائی دکھ اور تکلیف کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اہل صحافت پہ بھی اس قدر پابندیاں اور پہرے ہیں کہ بے چارے ڈالوں کے ڈر سے عوام کو حقائق بتلا نہیں پاتے، تصاویر کے سب رخ دکھلا نہیں پاتے جیسے ضیاء الحق یا ایوب آمریت میں ہوتا ہوتا تھا۔ دیکھیں تو سہی یہ لوگ ملک و قوم کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ سیلاب نے اس بار تو زرعی معیشت کی بنیادیں ہی ہلا ڈالی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ صرف قدرتی آفات نہیں ہیں بلکہ حکومتی نا اہلی اور بروقت اقدامات کی کمی نے تباہی کو کئی گناہ بڑھا دیا ہے۔ دنیا نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ”اکیس لاکھ ایکڑ سے زائد پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ چاول کی 9 لاکھ 71 ہزار ایکڑ، کپاس کی ایک لاکھ گیارہ ہزار ایکڑ، گنے کی سوا دو لاکھ ایکڑ اور سبزیوں کی ایک لاکھ پندرہ ہزار ایکڑ سے زائد فصلیں برباد ہو گئی ہیں“۔ اپنی کمپنی کی مشہوری کے لیے ہر جگہ اشتہار، حتیٰ کہ مسجد پر بھی اپنی تصویریں لگانے والے یہ ”شریف“ جو 1982ء سے اقتدار کا حصہ بنتے چلے آ رہے ہیں، یہ تو کہتے تھے کہ ہم نے لاہور کو پیرس بنا ”چھوڑا“ ہے لیکن حالیہ مون سون بارشوں کے دوران پوری دنیا نے دیکھ لیا ان کا جعلی پیرس بھی جو یہ زبانی کلامی بناتے رہتے ہیں۔ آٹھ فروری 2024ء کے الیکشن میں یہ لاہور اپنے گھر سے ہی ہار گئے مگر باز پھر بھی نہ آئے اور بذریعہ فارم سینتالیس کرسی سے چمٹ گئے۔ کب ملے گا اس جبر و جہالت سے چھٹکارا ۔ آخر کب ختم ہوں گی یہ تاریکیاں اور ہوگا اس نئی سحر کا طلوع۔۔؟ جب ہم اہلِ پاکستان جاگیں گے تو ہر سُو ہریالی ہوگی خوشحالی ہوگی، آخر کب۔۔؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button