لاہور میں 7 ستمبر کو منعقد ہونے والا شوریٰ ہمدرد کا 299 واں اجلاس،ذمہ دارانہ صحافت اور اخلاقی اقدار،کے تناظر میں تھا۔شوری ہمدرد کی چیئرپرسن
محترمہ سعدیہ راشد نے اجلاس کے لیے دعوتی خطاب میں قلم کی حرمت بیان کرتے ہوئے عصر حاضر میں ان تقاضوں کو پورا کرنے پر زور دیا تھا جو صحافت ایسے مقدس پیشہ سے وابستہ خواتین و حضرات کے پیش نظر ہونے چاہئیں ۔
اجلاس محترمہ ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ کی زیر صدارت منعقد ہوا،مہمان خصوصی جناب شفیق جالندھری تھے۔اجلاس میں معروف صحافی اور مصنف محترم قیوم نظامی ،پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک ،محترم ایثار رانا،صدرلاھور پریس کلب جناب اعظم چوہدری،محترمہ خالدہ جمیل،سید احمد حسن، تاثیر مصطفےٰ ،محترم خالد محمود عطاء،راناامیر اور پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری نے اظہار خیال کیا۔
مقررین نے عصر حاضر کی صحافت میں پائی جانے والی خامیوں اور خوبیوں کا کھل کر اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ آج کے اہل قلم پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جس قلم کے تقدس کی قسم اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کھائی ہے ۔ اس قلم کی حرمت کو پامال نہ کیا جائے ،صحافت مشن ہے اسے سیاسی اور مالی مفادات کی نزر نہ کیا جائے صحافی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس میں بسنے والے عوام میں سبھی سماجی برائیاں پائی جاتی ہیں۔
اور ان کے فطری تقاضے بھی عوام کی طرح ہیں مگر اس میں شک نہیں کہ اہل قلم ایک مخصوص طبقہ ہے جس میں احساسات اور جذبات کا ایک ایسا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے جو انہیں قلم کی حرمت کو پامال کرنے سے روکتا ہے اہل قلم کے ضمیر میں اس بات کی خلش پائی جاتی ھے کہ ان کی حقیقی ذمہ داری کیا ہے تاہم اس پس منظر میں ان حالات کا ذکر ضروری ہے جن میں تحقیقی صحافت کرنے والوں کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔
اس ضمن میں جناب ایثار رانا اور جناب اعظم چوہدری نے کھل کر اظہار خیال کیا اور تحقیقی صحافت کے فروغ نہ پانے کا ذمہ دار با اثر میڈیا ہاؤسز مالکان کو قرار دیا ۔دیگر مقررین نے بھی کہا کہ جب تحقیقی صحافت کرنے والے صحافیوں کے سروں پر بے روزگار ہو جائے کی تلوار لٹکتی رہے گی تو وہ سچ سامنے لانے میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔
مقررین نے کہا کہ صحافت میں سب سے زیادہ گند تب سے پڑا ہے جب سے سرمایہ دار ،جاگیردار،اور اس شعبہ سے بالکل نابلد شامل ہوتے ہیں۔یہ مافیا صحافت کو اپنے جرائم پر پردہ پوشی کے لئے استعمال کرتاہے۔ملکی معیشت،معاشرت اورسیاست ہی نہیں،ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی ان مافیاوں کے اپنے مخصوص مقاصد ہیں۔صحافت میں منفی رویے پروان چڑھنے کی دوسری بڑی وجہ سوشل میڈیا کا شتر بے مہار ہونا ہے،جہاں اظہار خیال کی آزادی کی آڑ میں ایسے ایسے گل کھلائے جا رہے ہیں کہ معاشرے کی اخلاقی اقدار ہی نہیں قومی سلامتی تک خطرے میں پڑ چکی ہے مگر اربابِ اختیار اس طرف توجہ نہیں دے رہے ۔