دھاندلی، دھاندلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انڈیا کو ورلڈ کپ جتوانے کیلئے آئی سی سی کا مکروہ چہرہ بے نقاب
تحریر۔ محمد عمر
پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ میں انڈیا کے ہاتھوں مسلسل آٹھویں شکست: ذکاء اشرف کا مشکوک کردار
دنیا بھر کے تقریبا دو ارب کرکٹ شائقین کی نظریں ان دونوں عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ پر مرکوز ہیں۔
یہ پہلا موقعہ ہے کہ عالمی کپ کے تمام میچز انڈیا میں منعقد ہو رہے ہیں۔ پیسے کے زور پر انڈیا کرکٹ پر راج کر رہا ہے، اپنے سالانہ ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ آئی پی ایل میں اس نے دنیا بھر کے کھلاڑیوں ( سوائے پاکستانی کھلاڑیوں ) اور ایمپائرز کو ملازم رکھا ہوا ہے جنہیں بیس پچیس دن کے اتنے پیسے مل جاتے ہیں جتنا وہ سال بھر میں نہیں کما سکتے، یہی وجہ ہے کہ وہ کھلاڑی اور ایمپائرز اپنی ٹیموں سے زیادہ انڈیا کا دم بھرتے ہیں۔
اس کی زندہ مثال رواں ورلڈ کپ ہے، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل جسے آئی سی سی بھی کہا جاتا ہے اس Plan پر عمل پیرا ہے کہ ٹورنامنٹ انڈیا میں ہو رہا ہے گھر کا مال گھر سے نہیں جانا چاپئے ہعنی ٹرافی انڈیا سے باہر نہیں جانی چاہیے، اس طرح کی کھلی دھاندلی گذشتہ روز پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ میں دیکھنے کو ملی ، کیمرے کی آنکھ نے وہ منظر محفوظ کر لیا ، 73 پر پاکستانی ٹیم کا ایک کھلاڑی آؤٹ ہے ، انڈین باؤلر ہردیک پانڈے گیند پر تھوک لگا رہے ہیں جو آئی سی سی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
گیند بہت زیادہ سونگ کرتی ہوئی باہر جاتے ہوئے امام الحق کے بلے کو چھوتی ہوئی وکٹ کیپر کےپاس جاتی ہے اور وہ آؤٹ ہو جاتے ہیں ، ایمپائر کووہ گیند نوبال قرار دے کر پاکستانی ٹیم کو 5 اضافی رنز دینا تھے اور ہردیک پانڈے پر کم از کم 3 میچوں کی پابندی عائد کرنا تھی لیکن ایمپائر کو کچھ نظر نہیں آیا، اسی اننگز میں ایمپائر کو کھلم کھلا انڈین ٹیم کی حمایت کرتے دیکھا گیا۔
جب پاکستانی بلے باز سعود شکیل کے خلاف ریویو لینے کیلئے ایمپائر اشارہ کر رہے ہیں ، یہ مناظر کیمرہ میں محفوظ ہو چکے ہیں لیکن آئی سی سی کو کچھ نظر نہیں آئے گا جو انڈیا کے مسئلہ پر ہمیشہ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ہماری عمر کے لوگ جو 1975 کے پہلے ورلڈ کپ سے آج تک 13ویں ورلڈ کپ کے میچز دیکھ اور سن رہے ہیں۔
شاید کبھی انڈیا کو ورلڈ کپ میں پاکستان سے ہارتے نہ دیکھ سکیں، کیا وجہ ہے کہ ورلڈ کپ کے علاوہ پاکستان کو ون ڈے اور ٹیسٹ میچوں میں انڈیا پر سبقت حاصل ہے یعنی پاکستان نے انڈیا سے ٹیسٹ اور ون ڈے زیادہ جیتے اور کم ہارے ہیں لیکن ورلڈ کپ میں ایسا کون سا دباؤ پیدا ہو جاتا ہے کہ پوری پاکستانی ٹیم کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور انہیں کرکٹ کی گیند توپ کے گولوں کی مانند نظر آنے لگتی ہے، اب یہی پاکستان اور انڈیا کی ٹیموں کے درمیان 5ون ڈے سیریز کرا دی جائے تو نتیجہ 5_2 ہو گا یعنی کم از کم پاکستانی ٹیم 2 میچز جیت لے گی۔
دونوں ممالک کے درمیان 134 ون ڈے میچز کھیلے جا چکے ہیں جن میں سے انڈیا نے 56 اور پاکستان نے 73 میچز جیتے ہیں ، پاکستان اور انڈیا کے درمیان مجموعی طور پر 59 ٹیسٹ میچز کھیلے جاچکے ہیں جن میں سے انڈیا نے 9 اور پاکستان نے 12 میچز جیتے ہیں جبکہ ورلڈ کپ میں دونوں ٹیموں کے درمیان 8 میچز کھیلے جا چکے ہیں اور یہ تمام انڈیا نے جیتے ہیں، ان شکستوں میں چند مواقع ایسے آئے جب میچ فکسنگ کے الزامات لگے اور یہ الزامات 100 فیصد بے بنیاد نہیں ، مثلا 1999 کا ورلڈ کپ جو انگلینڈ میں کھیلا گیا ، انڈین ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 222 رنز بنا سکی۔
پاکستانی شائقین پرامید تھے کہ 50 اوورز میں 223 کوئی بڑا ہدف نہیں، کھانے کے وقفہ کے دوران پاکستان کے ایک سابق فرسٹ کلاس کرکٹر کا فون آیا کہ احسان مانی انگلینڈ پہنچ گیا ہے ، پاکستانی ٹیم 170 سے 180 کے درمیان آؤٹ ہو جائے گی، پیسے کمانے ہیں تو شرط لگا دو ، میرا جواب تھا کہ تمہاری معلومات غلط ہیں ، درست بھی ہیں تو میں ایسی کمائی پر لعنت بھیجتا ہوں، لیکن اس کی خبر درست ثابت ہو گئی اور پاکستانی ٹیم 171 پر آؤٹ ہو گئی۔
30 مارچ 2011 پاکستان اور انڈیا کے درمیان موہالی میں سیمی فائنل کھیلا گیا ، چئیرمین کرکٹ بورڈ ذکاء اشرف ہنگامی، ،، یاترا ،، پر میچ سے ایک روز پہلے انڈیا پہنچے، کھلاڑیوں سے ملاقات کی ، انڈین ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 259 رنز بناسکی ، گراؤنڈ میں سناٹا تھا کہ انڈیا اپنے ہی ملک میں ورلڈ کپ سے باہر ہو جائے گی ، دوسری جانب ممبئی میں انڈیا کے فائنل جیتنے پر مٹھائیاں بانٹنے کی تیاریاں جاری تھیں ، انہیں پورا یقین تھا کہ انڈیا نہ صرف سیمی فائنل بلکہ فائنل بھی جیتنے والی ہے۔ پاکستانی بیٹنگ پراعتماد طریقہ سے شروع ہوئی 43 پر کوئی کھلاڑی آؤٹ نہ تھا 100 پر 6 آؤٹ ہو گئے، مصباح الحق 59 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے مگر انہوں نے زندگی کی سست ترین بیٹنگ کی، پاکستان 28 رنز سے میچ ہارا جبکہ مصباح نے 59 گیندیں بغیر کوئی اسکور بنائے کھیلیں۔12 سال بعد تاریخ نے خود کو دہرایا، ذکاء اشرف پھر سے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بن چکے ہیں۔
انڈیا کے ساتھ میچ سے ایک روز قبل ذکاء اشرف پھر انڈیا پہنچے ، کپتان بابر اعظم سمیت کھلاڑیوں سے ملاقات کی ، اگلے روز میچ میں پھر حیران کن واقعات ہوئے اور نتیجہ وہی 2011 والا۔ پاکستانی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کی ، 2 وکٹ پر 155 رنز، ٹی وی پر متوقع اسکور 282 دکھایا جا رہا تھا، کرکٹ مبصرین کے علاوہ انڈیا کے کھلاڑی بھی حیران کہ پاکستانی کھلاڑی صرف وکٹ گنوانے کیلئے میدان میں جا رہے تھے، صرف 36 رنز کے اضافے سے 8 وکٹ گر گئے۔ بابر اعظم 50 ، محمد رضوان 49، امام الحق 36 اور عبداللہ شفیق 20 پہلے 4 کھلاڑی تھے جنہوں نے کچھ اسکور کیا ، بعد میں آنے والے سعود شکیل 6، افتخار 4، شاداب 2 ، نواز 4، حسن علی 12 اور حارث روؤف 2 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
انڈین باؤلروں میں بڑا اتفاق نظر آیا ، پانچوں باؤلروں سراج ،بمرا ، ہردیک ، کلدیپ اور جادیجہ نے دو دو وکٹ حاصل کئے۔ دنیا کی بڑی ٹیموں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ کم اسکور پر آؤٹ ہو جائیں تو اتنے اسکور پر سخت مقابلہ کرتی ہیں لیکن پاکستانی ٹیم اس خاصیت سے عاری ہے ، اگر بیٹنگ ناکام ہو جائے تو باولنگ اور فیلڈنگ اس بھی زیادہ دباؤ میں آجاتی ہے ، پاکستانی فیلڈدز کا یہ حال تھا کہ باؤنڈری پر کھڑے کھلاڑی کے ہاتھ میں گیند نہیں آ رہی تھی اور کئی مرتبہ جب صرف ایک اسکور ہونا چاہئے تھا انڈین بلے بازوں کو 4 رنز مل گئے۔
بھلا ہو افتخار کا جنہوں نے شاہین شاہ آفریدی کی گیندوں پر دو کیچز پکڑ لئے اور انہیں دو وکٹ مل گئے۔ ایک وکٹ حسن علی کو مل گئی یہ کیچ بابر اعظم نے پکڑا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چئیرمین کرکٹ بورڈ ذکاء اشرف کس لئے انڈیا گئے ؟ کیا وجہ ہے کہ ان کی انڈیا،، یاترا،، سے وہی نتیجہ برآمد ہوا جو 2011 میں ہوا تھا۔ یہ بات تسلیم کرنے سے کوئی انکار نہیں کہ انڈین ٹیم جتنی مضبوط اور پروفیشنل آج ہے تاریخ میں کبھی نہ تھی ، جس کی وجہ آئی پی ایل ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور مہنگا ترین ٹورنامنٹ ہے۔
دوسرے لفظوں میں انڈیا میں ہر سال 20 ،/20 ورلڈ کپ منعقد ہوتا ہے۔ انڈین کھلاڑیوں کو دنیا کے تمام بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقعہ ملتا ہے ، ان کے پاس تقریبا 25 بین الاقوامی معیار کے کھلاڑی تیار ہو چکے ہیں، ان کیلئے 8 تک کی اوسط حاصل کر لینا کوئی بڑی بات نہیں۔
اس کے علاوہ دنیا کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کا تعاون بھی انڈین ٹیم کو حاصل ہے، اس ٹورنامنٹ کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ انڈین ٹیم فائنل تک پہنچے ، پاکستان اور آسٹریلیا کو وہ شکست فاش دے چکے ہیں، دونوں بڑی ٹیمیں 200 کا ہدف بھی نہ دے سکیں۔
آنے والے میچوں میں صرف جنوبی افریقہ اور انگلینڈ ہی انڈیا کے ساتھ کچھ مقابلہ کر سکتی ہیں، لیکن حالات یہی بتا رہے ہیں کہ 2011 کی طرح انڈیا اس مرتبہ بھی ٹرافی گھر میں ہی رکھ لے گی۔