پاکستان کی ایسی ہار کہ بھارتی بھی حیران دال میں کچھ کالا یا پوری دال ہی کالی ؟
تجزیہ ۔محمد عمر
کویت ( بر جستہ نیوز ) ایشیا کپ میں پاکستان نے انڈیا سے ذلت آمیز شکست کے بعد انڈیا کے مبصرین اور شائقین بھی حیران رہ گئے۔ پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیمیں بڑی مضبوط حریف ہیں ، جیت کسی کی بھی ہو مگر دونوں ٹیموں کے درمیان مقابلے بڑے سخت ہوتے ہیں۔
لیکن یہ پہلا موقعہ تھا جب یہ لگ رہا تھا کہ انڈیا کے مقابلہ میں کسی کلب کی ٹیم کھیل رہی ہے۔ رواں ٹورنامنٹ میں نیپال کی کرکٹ ٹیم بھی جو پہلی مرتبہ انٹرنیشنل میچ کھیل رہی تھی انڈیا کے خلاف 228 رنز بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی جبکہ پاکستانی ٹیم جس میں سپر سٹارز کی ایک طویل فہرست موجود ہے صرف 128 رنز بنا سکی۔ اس میچ کا بغور جائزہ لیا جائے تو دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔
پاکستان کو ٹورنامنٹ جیتنے کیلئے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا مگر اب اس کے فائنل کھیلنے کے امکانات بہت کم رہ گئے ہیں ، بات اگر مگر پہ آ چکی ہے، اگر منگل کے روز کھیلے جانے والے میچ میں انڈیا میزبان ٹیم سری لنکا کو ہرا دے تو پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلا جانے والا آخری گروپ میچ اہمیت اختیار کر جائے گا اور اس میچ کی فاتح ٹیم فائنل میں پہنچ جائے گی۔
اس میچ کے نتیجہ خیز نہ رہنے کی صورت میں سری لنکا ٹیم فائنل کھیلنے کی حقدار ہو گی کیونکہ انڈیا سے شکست کے بعد پاکستان کی رنز اوسط بہت کم یعنی منفی 2 تک چلی گئی ہے۔ اگر سری لنکا انڈیا کو ہرانے میں کامیاب ہو گئی اور پاکستان ٹیم آخری میچ میں سری لنکا کو ہرانے کی صورت میں بھی فائنل تک نہیں پہنچ سکے گی۔ اس لئے پاکستانی شائقین نہ چاہتے ہوئے بھی سری لنکا کے خلاف انڈیا کو کامیاب دیکھنا چاہیں گے۔
انڈیا کے خلاف میچ کے دوران دو اہم باؤلرز نسیم شاہ اور حارث روؤف ان فٹ ہو گئے جس کا فائدہ انڈیا کے بلے بازوں کوہلی اور راہول نے اٹھایا، ایسے مواقع پر فیلڈنگ بھی باؤلروں کی محنت ضائع کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، کھلاڑی کیچ پکڑنا تو بھول ہی گئے تھے۔
ایسے محسوس ہو رہا تھا پاکستانی فیلڈر گیندیں روکنے کیلئے نہیں بلکہ میچ دیکھنے کیلئے کھڑے ہیں ۔ پاکستانی فیلڈنگ بہتر ہوتی تو شاید انڈین ٹیم کا اسکور 300 کے لگ بھگ ہی رہتا۔
فیلڈنگ کو دیکھ کر ہی سوشل میڈیا پر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو ہے، دال میں کچھ کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔ بلے بازوں کی کارکردگی نیپال ٹیم سے بھی بدتر رہی ، جس وکٹ پر پاکستان کے واحد اسپنر شاداب خاں نے 70 سے زائد رنز دے دئیے ، انڈیا کے بائیں ہاتھ سے اسپن باولنگ کرنے والے کلدیپ ہادیو نے 25 رنز دے کر 5 وکٹ حاصل کر لئے۔ بمراہ 15 ماہ بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آئے تھے۔
انہوں نے شاندار سونگ باولنگ کا مظاہرہ کیا اور شروع میں پی پاکستانی بلے بازوں پر ایسا دباؤ قائم کر دیا جس سے وہ آخر دم نہیں نکل سکے۔ ویرات کوہلی ون ڈے میچوں میں 47 ویں اور کے ایل راہول 5 ویں سنچری بنانے میں کامیاب رہے۔ یہ ایک ایسا میچ تھا جسے انڈین شائقین اور پاکستانی شائقین کبھی بھلا نہیں سکیں گے۔
کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا جو غلط تھا لیکن اتنی ذلت آمیز شکست کا پھر بھی کوئی جواز نہ تھا ، پاکستانی کھلاڑی 356 کے جواب میں 250 بھی کر جاتے تو اتنی مایوسی نہ ہوتی۔
اسٹیڈیم میں موجود انڈین تماشائی والہانہ رقص کر رہے تھے جبکہ پاکستانی شائقین سر جھکائے بیٹھے تھے، ان کی شرمندگی ایک شخص ( بابر اعظم ) کی وجہ سے تھی جس کو شائد کوئی شرمندگی بھی نہ ہو۔