کالم و مضامین/Articles

معاشرتی زندگی کے نفسیات۔۔۔!

تحریر: میر افضل خان طوری
مشہور امریکی مصنف نیپولین ہل نے اپنی کتاب “تھنک اینڈ گرو رچ” میں زندگی پر انتہائی خوبصورت قول پیش کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ ” آپ جس خاندان سے آتے ہیں اس سے زیادہ بہتر وہ خاندان ہوتا ہے جسے آپ بناتے ہیں”۔
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی خود تخلیق کرنی ہوتی ہے۔ اپنے راستے کا خود انتخاب کرنا ہوتا ہے۔
کارل مارکس نے کہ ” دنیا کے فلسفیوں نے صرف دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اصل مقصد اسے بدلنا ہے” ۔
بھیڑ ہمیشہ فالو کرتی ہے۔ وہ کبھی بھی اپنا راستہ خود نہیں چنتی۔ چرواہے یعنی اپنے چلانے والے کے پیچھے چلتی ہے۔ پھر چاہے وہ اسے ذبح کرنے کیلئے سلاٹر ھاوس ہی کیوں نہ لے جا رہا ہو۔ جبکہ ایک شیر اپنا راستہ خود چنتا ہے۔ اسے کسی کے حمایت کی ، کسی کے اپرسیشن یا تنقید کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور وہ کر گزرتا ہے۔ اب فیصلہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ اس نے بھیڑ کا راستہ چننا ہے یا شیر کا۔
جان لاک فرماتے ہیں کہ ” انسان کی آزادی اس کی فطرت کا حصہ ہے”۔
زندگی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ جس دن آپ نے ہار مان لیا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا راستہ خود بند کردیا۔ آپ نے اپنے مقاصد کا خود ہی گلہ گھونٹ دیا۔
ہار نہ ماننا اگر سیکھنا ہے تو ایک چیونٹی سے سیکھو ، آپ اس کا راستہ کبھی روک نہیں سکتے۔ آپ جتنی بار اسے روکیں گے وہ اتنی ہی بار نیا راستہ تلاش کرے گی۔
ایسی بہت سی مثالیں ہیں جنھیں انسان کائنات میں موجود دوسری مخلوقات سے سیکھ سکتا ہے۔ ان کی زندگی میں انسانوں کیلئے اعلی ترین مثالیں موجود ہوتی ہیں۔ بس ہمیں ان پر صرف غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
پرندہ اگر اڑنے کی ٹھان لے تو ہواوں کو راستہ دینا ہی  پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک باز آسمان کی بلندیوں پر جانے کیلئے ہمیشہ طوفانوں کا استعمال کرتا ہے۔
وقت سب کو ملتا ہے زندگی بدلنے کیلئے لیکن زندگی پھر نہیں ملتی وقت کو بدلنے کیلئے۔ یہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا لمیہ ہے۔ انسان کو اس پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔
مشہو یونانی فلسفی سقراط سوچنے اور غورو فکر کرنے کے اس راز کو یوں بیان فرماتے ہیں۔
‘کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی تمنا ئے محفی نے آرزو کو فکر کا لباس پہنا کر چھپکے چھپکے انہیں پیدا کر دیا ہو”
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ طوفان کی تیاری کیلئے سب سے اچھا دن دھوپ والا دن ہوتا ہے۔
ہم کئ دن ، کئی ہفتے، کئی مہینے اور کئی سال فضول میں ضائع کرتے ہیں۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا اور جب احساس ہو ہی جاتا ہے تو اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہم اپنے انتہائی اہم کاموں کو کل پر ٹالتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ کل پھر کبھی نہیں آتا۔ ہم اپنے فارغ وقت سے فائدہ اٹھانے اور اس کو صحیح معنوں میں استعمال کرنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کرتے۔
ہمارے فیصلے ہماری زندگی تخلیق کرتے ہیں۔ درست اور بروقت فیصلوں کی لائف میں بہت  اہمیت ہوتی ہے۔
ہمارے اکثر فیصلے رونما ہونیوالے واقعات پر ہمارے ردعمل کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اس ردعمل کا ہمارے حالات پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔
ویکٹر فرنکلن نے کہا کہ ” ہمارے آس پاس جو کچھ ہوتا ہے۔ ہم اسے بدل نہیں سکتے۔ لیکن اس پر کیسے ردعمل کرنا ہے وہ ہمارے ہاتھ میں ہے” ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں کسی واقعہ پر ردعمل دینے سے پہلے  ہزار بار سوچنا چاہئے کیونکہ اس ردعمل کے ہماری زندگی پر مثبت یا منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اس میں بھی تین باتیں شامل ہیں۔ مثبت ردعمل دینا ، منفی ردعمل دینا اور ردعمل نہ دینا۔ ان تینوں میں سے جو آپشن آپکے لئے بہتر ہو اسی کا آپ کو انتخاب کرنا چاہیے۔ یہ فیصلہ آپ کی خود انحصاری ، خود اعتمادی اور شعور ذات کا مظہر ہونا چاہئے۔
جان پال ساتر فرماتے ہیں ” انسان اپنے فیصلوں کا مجموعہ ہے جو تم چنتے ہو، وہی تم ہو”۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button