کالم و مضامین/Articles

فریضہ حج و قربانی اور خواجہ اویس ویلفیئر فاﺅنڈیشن

ہمارے مذہبی تہوار عیدالاضحی کی دو روز بعد ادائیگی ہے اور اس سے پہلے پہلے فرزندان توحید قربانی کے جانوروں کی خریداری میں سرگرداں ہیں۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے حرم شریف اور میدان عرفات میں موجود فرزندانِ توحید کے لئے تو پہلے ہی قربانی کے جانوروں کی خریداری کا مرحلہ طے ہو چکا ہے کیونکہ قربانی کا یہ فریضہ ان کے حج اخراجات میں ہی شامل ہوتا ہے اور ہر عازمِ حج سے قربانی کی متعینہ رقم پہلے ہی وصول کر لی جاتی ہے ۔ میں نے 2016 ءمیں فریضہ حج ادا کیا تو اس وقت چارسو سعودی ریال حج کے اخراجات میں ہی شامل تھے۔ اب یقینا یہ رقم بڑھ چکی ہو گی مگر یہ رقم پہلے سے متعین شدہ ہوتی ہے جس میں ”بارگین“ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
میں آج حج اور قربانی کے اخراجات کے حوالے سے ہی کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ان بھاری اخراجات کے باعث کسی غریب اور درمیانے درجے تک کے مسلمان کے لئے یہ مذہبی فرائض ادا کرنا ممکن بھی رہا ہے یا نہیں۔ ہمارے عام طبقات کے لوگ حج کے مقدس فریضے کی ادائیگی کے لئے عمر بھر کچھ نہ کچھ پس انداز کرتے رہتے ہیں اور پھر اپنی ضعیف العمری میں اس جمع شدہ رقم سے فریضہ حج ادا کرنے کی بمشکل پوزیشن میں آتے ہیں۔ ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی کے آخری سانس سے پہلے پہلے وہ درِ اقدس پر حاضری دے کر فریضہ حج کی سعادت حاصل کر لیں۔ آج سے چار پانچ سال قبل تک غریب و نادار مسلمان بھی اپنی پس انداز کی گئی رقم سے فریضہ حج کی سعادت حاصل کر لیا کرتے تھے مگر اب ان طبقات کے لئے تو فریضہ حج کی ادائیگی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے کیونکہ اس وقت ایک فرد کے حج اخراجات جستیں بھرتے بھرتے 14 لاکھ روپے تک جا پہنچے ہیں۔ یہ اخراجات تو سرکاری سطح پر کئے گئے حج انتظامات کے ہیں جبکہ نجی ٹریول ایجنسیوں کے ذریعے فریضہ حج ادا کرنے والے افراد کو اس سے بھی زیادہ حج اخراجات اٹھانا ہوتے ہیں۔ آپ تصور کیجئے کہ ایک غریب گھرانے کے میاں بیوی، جو ملک کے موجودہ مالی اور اقتصادی حالات میں پہلے ہی عملاً زندہ درگور ہو چکے ہیں، اگر اکٹھے فریضہ حج کی ادائیگی کا عزم باندھیں گے تو کیا اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے لئے وہ یکمشت 28 ، 30 لاکھ روپے نکالنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
اس صورت حال میں کیا یہ تصور کر لیا جائے کہ فریضہ حج کی ادائیگی صرف باوسیلہ، اشرافیہ اور صاحبِ اختیار حکمران طبقات ہی کا استحقاق بن گیا ہے اور یہی “مخلوقِ“ ربِ کائنات خداوندکریم کی پسندیدہ مخلوق ہے۔ اور کیا یہ مشیت ایزدی ہو سکتی ہے کہ فریضہ حج کی ادائیگی باوسیلہ اشرافیہ طبقات کے لئے ہی مخصوص کر دی جائے۔ ہرگز نہیں۔ رب کائنات کو تو اپنی ہر مخلوق مساوی طور پر عزیز ہے۔ ان میں مسلم و مشرک کا تو امتیاز ہو سکتا ہے اور مسلمانوں میں بھی تقاضائے سزا و جزا کا امتیاز ہو سکتا ہے مگر رب ذوالجلال کی یہ منشا ہرگز نہیں ہو سکتی کہ فرض عبادات کی ادائیگی صرف اصحابِ وسیلہ کا حق بنا دی جائے۔ اگر آج حکومتی پالیسیوں ، اقدامات اور ناسور بنے کرپشن کلچر کی بدولت بے وسیلہ عام اور غریب مسلمان قربانی اور حج کے فریضہ کی ادائیگی کی استطاعت سے محروم ہو رہا ہے تو کیا یہ گناہ ان افراد ، طبقات اور سرکاری و نجی اداروں کے سر نہیں جانا چاہیے جنہوں نے دنیا کی ہر نعمت اور مال و دولت صرف اپنے آنگنوں میں سمیٹ کر عام خلقِ خدا کو زندگی گزارنے کے بنیادی لوازمات سے بھی محروم کر دیا ہے۔
ربِ ذوالجلال تو خالقِ کائنات ہے اور حضرت نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت اللعالمین ہیں، پھر انہیں خلقِ خدا میں طبقاتی تفاوت اور مسلمانوں کے مقدس فریضہ حج و قربانی کو صرف باوسیلہ اشرافیہ طبقات تک محدود کرنا بھلا کیونکر قبول ہو سکتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ غیر مسلم اور لادین ممالک میں مسلمانوں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر اشیائے خورد و نوش کے نرخ اور حج اخراجات کم کر دئیے جاتے ہیں جس کے لئے بھارت کی مثال دی جائے تو بھارت کی پاکستان دشمنی کے ماحول میں شائد یہ ناگوار سمجھی جائے مگر زمینی حقائق تو یہی ہیں ۔ تو کیا ہمیں اس صورت حال پر اپنا کتھارسس نہیں کرنا چاہیے کہ مذہبی تہواروں کے دوران لوٹ مار کا عمل تیز کرنا، ذخیرہ اندوزی کر کے اشیاءکی مصنوعی قلت پیدا کرنا اور پھر انہیں من مانے نرخوں پر فروخت کرنا اور اسی طرح قربانی اور حج کے فرائض کی ادائیگی کو حج اخراجات اور قربانی کے جانوروں کے نرخ آسمانوں تک پہنچا دینا ہی ہمارا کلچر بنا رہنا چاہیے یا حکمرانوں اور دوسرے ذمہ داران کو غریب و نادار مسلمانوں کے لئے بھی مذہبی فرائض کی ادائیگی آسان بنانے کے لادین ممالک جیسے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں؟۔ اس وقت آپ کیٹل مارکیٹوں اور قربانی کے جانوروں کی فروخت کے مراکز میں جا کر قربانی کے چھوٹے بڑے جانوروں کے نرخوں کا جائزہ لیں تو کانوں سے دھواں نکلنے لگے گا ۔ اس وقت پندرہ سے 20 کلو تک کے وزن کا بکرا، مینڈھا کم از کم ایک لاکھ 30 ،35 ہزار روپے اور زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ لاکھ روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔
اگر کسی نے بچھڑے، گائے یا اونٹ کی اجتماعی قربانی کر نی ہو تو ایک حصے کی قربانی کے نرخ 35 سے 40 ہزار روپے تک جا پہنچے ہیں اس لئے غریب، بے وسیلہ مسلمانوں کے لئے قربانی میں حصہ ڈالنا بھی دشوار ہو رہا ہے۔
اس کے برعکس ہر جائز ناجائز ذریعے سے دولت اکٹھی کرنے والے خود ساختہ اشرافیہ طبقات معاشرے میں اپنا ”شملہ“ اونچا رکھنے کے جنون میں اور محض دکھاوے کے لئے نہ صرف مہنگے سے مہنگے جانور خرید کر لاتے ہیں بلکہ ان کی نمود و نمائش میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان کے بچے یہ مہنگے اور سجے سجائے جانور اپنے علاقے کی گلیوں، بازاروں میں تفاخرانہ انداز میں گھماتے پھراتے ہیں تو ان کا یہ ”شوشا“ والا عمل قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والے بے وسیلہ اور محروم و مقہور طبقات کے احساسِ کمتری و محرومی کو بھڑکانے کا باعث ہی بنتا ہے۔ ہمارے آج کے معاشرے میں جب غربت اس انتہاءکو جا پہنچی ہے کہ ایک غریب خاندان کا سربراہ عید کے نئے کپڑے لانے کی اپنے بچوں کی خواہش پوری نہ کر پانے کے باعث بچوں سمیت خودکشی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو چکا ہے تو حج اور قربانی کے مذہبی فرائض کی ادائیگی کی سکت نہ رکھنے والے ہر انسان کو یہی راستہ اختیار کرنے کی کیا حکومتی سطح پر تلقین کی جا رہی ہے۔ جناب ! خلقِ خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہی اصل عبادت اور اصل سکونِ قلب ہے۔ اگر کوئی انسان زندگی کے لوازمات سے محروم رکھا جائے تو اس کا دوشی ان طبقات کو ہی ٹھہرانا چاہیے جو اپنی طاقت و اختیار اور ناجائز وسائل سے ہمارے انسانی معاشرے میں طبقاتی امتیاز پیدا کر کے خود کو ظلِ الٰہی سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ مشیت ایزدی تو ہرگز نہیں۔ اسی سماجی تفاوت کو میں نے اپنے ایک شعر میں اس طرح سمویا ہے کہ؛
جس نے تجھے خوشی دی
وہ میرا بھی خدا تھا۔
اس سماجی تفاوت کو ختم کرنے کے لئے اسلامی، جمہوری، فلاحی معاشرے کے تصور کو عملی قالب میں ڈھالنا ضروری ہے جس کے لئے سلطانئ جمہور کو اس کے اصل مفہوم کے ساتھ رائج کیا جائے گا تو اس کے ثمرات بے وسیلہ ، غریب و مفلس عوام تک بھی پہنچ پائیں گے۔
مجھے اس امر پر اطمینان ہے کہ ہمارا معاشرہ دردِ دل رکھنے والے انسانوں سے ابھی خالی نہیں ہوا۔ بے شمار اصحابِ وسیلہ اور دینی فلاحی تنظیمیں ایسی موجود ہیں جو محروم طبقات کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی لگن رکھتی ہیں اور اپنے وسائل سے دکھی انسانیت کی مقدور بھر خدمت کر رہی ہیں۔ ان میں ننکانہ صاحب کی صدیوں سے قائم سلسلہ اویسیہ کی خانقاہ آستانہ عالیہ چینڈپور شریف بھی شامل ہے اور مجھے زیادہ طمانیت اس بات پر ہے کہ خواجہ اویس ویلفیئر فاﺅنڈیشن موڑ کھنڈا بھی 1995ء سے آستانہ عالیہ اویسیہ کی نگرانی اور نوائے وقت کے دینی کالم ”نورِ بصیرت“ کے ذریعے علم و آگاہی اور بصیرت کی کرنیں بکھیرنے والے کالم نگار خواجہ نور الزمان اویسی کی سرپرستی میں فلاحِ انسانیت کا فریضہ بے لَوث سرانجام دے رہا ہے۔ بالخصوص اس ادارے نے امراض چشم میں مبتلا بے وسیلہ انسانوں میں آنکھوں کا نور پھیلانے کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے اور یہ ادارہ 1995ء سے اب تک امراض چشم کے لاکھوں مریضوں کا بلامعاوضہ معائنہ اور ہزاروں مریضوں کی آنکھوں کا اپریشن کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ اس ادارے کا مریم بیگم میموریل ہسپتال مستحق خواتین کو 2003 ءسے اب تک زچہ بچہ کی ہمہ وقت سہولتیں فراہم کر رہا ہے جن میں معائنہ، الٹرا ساﺅنڈ، ڈلیوری اور اپریشن کی بلامعاوضہ سہولتیں بھی شامل ہیں۔ اب تو اس خیراتی ہسپتال کی جانب سے ٹویوٹا ہائی ایس ائرکنڈیشنڈ ایمبولینس کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی ہے جس کے باعث مریض خواتین کو گھر سے ہسپتال منتقل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ خواجہ اویس ویلفیئر فاﺅنڈیشن کے بانی ممبر پروفیسر ڈاکٹر آفتاب محسن کی زیر نگرانی فری میڈیکل کیمپ بھی دکھی انسانیت کی بدرجہ اتم خدمت کر رہا ہے۔
ہماری سوسائٹی کو درحقیقت ایسی فلاحی تنظیموں کی ہی ضرورت ہے جو بے وسیلہ اور غریب و پسماندہ افراد میں محرومیوں کا احساس ختم کرنے میں معاون بنیں، بالخصوص ہماری مساجد، دینی مدارس اور خانقاہوں کو اس نہج پر ڈھالا جائے کہ وہ اپنے زیر تعلیم و تربیت بچوں کو فلسفہ جہاد کی غلط تشریح کر کے، اپنے ہاتھوں میں بندوق اور کلاشنکوف پکڑنے کے راستے پر لگانے کے بجائے دکھی انسانیت کی خدمت کی جانب مائل کریں جس کی گراوٹوں میں لتھڑے ہمارے معاشرے کو آج زیادہ ضرورت ہے۔ وماعلینااِلالبلاغ۔

سعید آسی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button