کرپشن ،جھوٹ ،فریب اور بد زبانی معاشرتی المیہ
مسائل سے چشم پوشی معاشرے میں بگاڑ اور مسائل میں اضافے کا سبب بنتی ہے ، جس کی اصلاح پیچیدہ اور طویل مدت پر محیط ہونے سے ملکی خزانے پر بوجھ بنتاہے ، کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بندکر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بلی چلی گئی کبوتر کو بلی کی موجودگی کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب بلی اسے اپنے منہ میں دبوچ لیتی ہے۔
ہمارے ملک کے تجربہ کار سیاسی شخصیات کا طرزِ عمل بھی آنکھیں بند کر لینے والا ہے، ملک میں دور اندیش قیادت کے فقدان کے علاوہ صنعتی،تعلیمی ، زرعی اور آبی منصوبہ بندی بھی ناپید ہے، ملک کی درست سمت میں پیش رفت بھی رخنہ ڈالنے والی استحصالی قوتوں کی مرہون ِ منت ہے ، غیر سیاسی افراد ملک میں بد امنی، کرپشن،جھوٹ، فریب اور بدزبانی کا اعلانیہ ارتکاب کر رہے ہیں ، جو کہ معاشرتی المیہ ہے۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارتِ خارجہ میں پائیدار ترقی میں نجی شعبے سے استفادہ کے عنوان پر خطاب میں کہا کہ ’’ کرپٹ لیڈر شپ ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا المیہ ہے ‘‘ یہ کیسے ثابت ہو کہ کون کرپٹ ہے اور کون صادق و امین ہے ، کیا آج تک کسی عدالت میں یہ ثابت ہوا ، ہاں الزامات کی بھر مار ضرورہے لیکن ،جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون ، کہاں ہے الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ’’ موجودہ حکومت نے کرپشن کیخلاف سب سے زیادہ اقد مات کئے ہیں ، وزیرِ اعظم صاحب کے کرپشن کے حوالے سے یہ بیان انتہائی حیران کن ہے جب کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کیمطابق پاکستان میں کرپشن پچھلے سالوں کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے ۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کا قیام 1993 ء میں عمل میں آیا، جرمنی میں رجسٹرڈ ہونے والی ٹرانسپرنسی اٹرنیشنل ورلڈ بینک کے سابق ملازمین پر مشتمل غیر منافع بخش اور غیر سرکاری ادارہ جس کا مقصد سول سوسائٹی کے انسداد بد عنوانی کے اقدامات کے علاوہ عالمی بد عنوانی سے پیدا ہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنا ہے ، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے قابل قدر اشاعتی اقدامات میں گلوبل کرپشن بیرومیٹر، اور کرپشن پر سیپشن انڈیکس شامل ہیں ، 1993 ء میں چند افراد پر مشتمل اس ادارے کے ممبران کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ، اب 100 سے زائدممالک میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے نمائندے اپنے آبائی ممالک میں بدعنوانی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں ، G20 کی ممبر ہونے کے علاوہ مشاورتی حیثیت سے یونیسکو سے منسلک ہے، امن ،انصاف اور مضبوط اداروں کے مقاصد کیلئے اقوام ِ متحدہ کی شریک ِ کار ہے، وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پاکستان کا درجہ مالی اعتبار سے کرپشن نہیں بلکہ سیاسی کرپشن اور قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے باعث گرا ہے ‘‘ واہ جی واہ ریاض خیر آبادی کہتے ہیں ،
مطلب کی بات شکل سے پہچان جایئے میں کیوں کہوں زبان سے خود جان جایئے کرپشن کا عالمگیر جائزہ لینے والے ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن کے حوالے سے سی پی آئی انڈیکس رپورٹ 2021 ء جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حکومتی دعوئوں کے برعکس کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہے، پاکستان میں کرپشن میں اضافہ سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے ، جبکہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان بہتری کے بجائے تنز لی کی طرف گامزن ہے 180 , ممالک کی عالمی فہرست کی درجہ بندی میں پاکستان کی تنزلی16 درجے ریکارڈ کی گئی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کیمطابق پاکستان میں کرپشن گزشتہ سال کے مقابلے میں بڑھی ہے ، موجودہ حکومت نے جب 2018 ء میں اقتدار سنبھالا تو اس وقت پاکستان کا کرپشن انڈیکس میں 117 واں نمبر تھا ، پاکستان 2019 ء کی درجہ بندی میں 120 ویں نمبر پر تھا، 2020ء میں پاکستان کا 124 واں نمبر تھا ، اور اب حیرت انگیز طور پر پاکستان کاکرپشن کی درجہ بندی میں 140 ویں نمبر پر آنا ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں پاکستان کی کرپشن میں 23 درجہ کی تنزلی ہوئی ہے۔موجودہ دورِ حکومت میں کرپشن ہی نہیں کرپشن کے طریقہ کار بھی بدل گئے ہیں نچلی سطح پر مہنگائی نے کرپشن کو بڑھاوا دیا ، اعلی سطح پر میگا کرپشن نے ملک کو عالمی درجہ بندی میں 140 ویں نمبر پر گرا دیا ، جیسا کہ وزیرِ اعظم صاحب کہتے ہیں کہ کرپشن کے خاتمے کا وعدہ حکومت میں آنے کے پہلے 90 روز میں پورا کر دیا تھا،اور ہمارے دور میں کوئی مالی سکینڈل سامنے نہیں آیا، تو جنابِ عالیٰ ’’ سب ٹھیک ہے ‘‘ کے حصار سے نکلیں اور حقیقت پسندی کو اپنائیں ، پشاور کا بی آرٹی ، چینی ، آٹا اور راوالپنڈی رنگ روڈ کے سکینڈل کے علاوہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں من پسند افراد کو ٹھیکے اور نوازشیں کس زمرے میں آتی ہیں ۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلام ِ نرم و نازک بے اثر