پیکر ِ استقلال ۔ ملک برکت علی

ڈاکٹر سلیم اختر
ملک برکت علی کا ذکر تاریخ میں بہت کم نظر آتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل انکے شاندار کردار ‘ جو انہوں نے پنجاب اور مسلم لیگ کیلئے سرانجام دیا‘ اس سے بالکل بے خبر ہے۔ ملک برکت علی1936ءکے الیکشن میںمتحدہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔انہیں قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے ٹکٹ جاری کیا تھا۔اس پنجاب اسمبلی میں بھارت کا موجودہ صوبہ ہریانہ،مشرقی پنجاب اور پاکستان کا موجودہ صوبہ مغربی پنجاب شامل تھے۔ اس وقت ہندوستان کے حکمران انگریز تھے،اور پنجاب اسمبلی کے ایوان میں ہندو ، سکھ اور مسلمان بھی شامل تھے جن کا مقابلہ ملک برکت علی نے تن تنہا کیا۔اسمبلی سے باہر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی جس میں بڑے بڑے قد آور مسلمان لیڈر موجود تھے لیکن اسمبلی کے فلور پر انکی آوازبلند کرنے کا فریضہ ملک برکت علی کے کندھوں پر تھا جسے انہوں نے بخوبی نبھایا۔ اس دور میں ملک برکت علی نے جو بے مثال کارنامہ سرانجام دیا‘ افسوس مو¿رخین نے انکی گرانقدر خدمات کو یکسر فراموش کردیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعد کے مو¿رخین نے بھی انکی خدمات کو نظرانداز کئے رکھا۔ لیکن جب کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ ملک و قوم کے بہتر مستقبل کیلئے کوشاں ہوں‘ تو اسکی کوششیں نہ تو رائیگاں جاتی ہیں اور نہ ہی اسکی خدمات کو فراموش کیا جا سکتا ہے‘بے شک تاریخ نے ملک برکت علی کو فراموش کر دیا لیکن قدرت نے انکے پوتے ڈاکٹر محمود شوکت کے ذریعے انکی خدمات کو تاریخ کا حصہ بنانے کا ہنر سونپ دیا۔ زیر نظر کتاب ”پیکر استقلال ‘ ملک برکت علی“ انکے ہونہار اور فرض شناس پوتے ڈاکٹرمحمود شوکت نے تحریر کی ہے۔ ڈاکٹر محمود شوکت خود موجودہ دور میں ایک قد آور شخصیت ہیں لیکن انکی پہچان ملک برکت علی کے پوتے کی نہیں‘ بلکہ وہ ایک کامیاب اور معروف سرجن کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔لاہور کے میو ہسپتال،جناح ہسپتال،گلاب دیوی ہسپتال جیسے بڑے ہسپتالوں کے وہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ رہے۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا تقرر ہیلتھ یونیورسٹی کے وی سی کے طور پر کیا گیا اور دو سال وہ پنجاب کورونا کمیٹی کے اعزازی ایڈوائزر اور سربراہ رہے۔چونکہ وہ اپنے دادا ملک برکت علی کی خدمات سے کسی حد تک واقف تھے اور گھر میں اکثر ان کا ذکر سنتے رہتے‘ لیکن ملکی نامور شخصیات میں ان کا نام نہ پا کر مضطرب رہتے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے دادا ملک برکت علی کے بے مثال کردار کو اجاگر کرنے کی ٹھانی تاکہ تاریخ میں انکے نام کو زندہ و روشن کیا جا سکے ۔ اس کیلئے انہوں نے حکومت کے قائم کردہ سرکاری دستاویزات خانہ (Archives) کی خاک چھانی اور ایسے لوگوں کا سراغ لگایا جنہوں نے واقعی معجزاتی عمل میں بھرپور حصہ لیا اور جو حقیقتاً قومی لیڈر تھے لیکن تاریخ کے صفات میں یا تو انکے نام دھندلا سے گئے یا انکے کردار کو نظرانداز کردیا گیا۔
ڈاکٹر محمود شوکت لکھتے ہیں:
”1946ءکے اوائل تک عموماً مسلمان خود کو مسلم لیگ سے الگ رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے اور چند مٹھی بھر لوگوں کے علاوہ کوئی خاطر خواہ شرکاءبھی نہ تھے۔ اسی دور میں کئی کتابیں لکھی گئیں جو تاریخ کا حصہ بنیں‘ جن میں مصنفین نے اپنے من پسند یا مرضی سے لوگوں کے کردار کو بڑھا چڑھا کر یا کم کرکے بیان کیا اور یوں ایک فرضی تاریخ کا انبار لگتا چلا گیا۔ بعض کتابوں میں تو ان لوگوں کی طبعی عمر دیکھ کر ہنسی آتی ہے کیونکہ ان کتابوں میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیاہے‘ وہ 1947ءمیں شاید دس برس کی عمر کے ہونگے‘ ایسے میں انکے قومی لیڈر ہونے کا کیسے یقین کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی خودساختہ واقعات نے مجھے مجبور کیا کہ کیوں نہ قارئین کے سامنے اصل حقائق لائے جائیں اور ان شخصیات کی زندگی پر قلم اٹھایا جائے‘ جنہیں بے رحم مو¿رخین نے تاریخ لکھتے وقت یکسر نظرانداز کردیا ہے۔ اس ضمن میں یقیناً میری پہلی ترجیح ملک برکت علی پر تحقیق کرنا تھی ۔ میں بچپن سے ہی انکے بارے میں سنتا چلا آیا تھا ۔نہ صرف گھر میں ان کا ذکر ہوتا بلکہ مولانا عبدالستار نیازی‘ احمد سعید کرمانی‘ مجید نظامی‘ مفتی محمود‘ نوابزادہ نصراللہ‘ مطہر علی‘ نواب قزلباش‘ شورش کاشمیری‘ حفیظ جالندھری‘ عاشق حسین بٹالوی‘ اعجاز بٹالوی‘ شمیم حسن قادری‘ نسیم حسن شاہ‘ محمود علی قصوری اور کئی دیگر نامور شخصیات نہایت ادب اور احترام سے ملک برکت علی کا نام لیتی تھیں۔ اتنی اہم شخصیت ہونے کے باوجود آخر ایسی کونسی وجوہات تھیں کہ لکھی گئی تاریخ میں ان کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔
اسی جستجو میں 2008ءکو جب میں پہلی مرتبہ نیشنل آرکائیوزاسلام آباد گیا تو وہاں صدر دروازے پر لگی ایک تصویر دیکھی جو 22 مارچ 1940ءکی تھی۔ اسے دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا۔ تصویر کا عنوان ”لیجنڈ آف پاکستان“ تھا۔اس تصویر کے علاوہ مزید 19 کی تصویر یں اور تھیں‘ ان میں سے تین تصویروں کے نیچے نامعلوم لکھا ہوا تھا۔ ان تینوں نامعلوم شخصیات کے بارے میں اپنے تجسس کو دور کرنے کیلئے میں سیدھا ڈی جی صاحب کے کمرے میں گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ پہلے شخص ہیں جنہیں اس بات پر شکایت ہوئی ہے۔ آپ یہاں کس سلسلے میں تشریف لائے ہیں؟ میں نے جب انہیں اپنا مدعا بیان کیا تو فرمانے لگے کہ ہم تو خود سوچتے تھے کہ شاید ملک صاحب کا کوئی والی وارث نہیں ہے اسی لئے انکے حوالے سے آج تک کوئی شخص نہیں آیا اور نہ ہی انکے بارے میں کوئی کتاب لکھوائی گئی۔ جب تک خاندان کے لوگ ذاتی دلچسپی نہ لیں اور کوشش نہ کریں‘ ایسی کئی شخصیات تاریخ میں گمنام ہوجاتی ہیں۔
نیشنل آرکائیوز سے معلومات اکٹھی کرنے کے بعد میرا اگلہ قدم ملک برکت علی کی زندگی اور کاوشوں پر ایک مفصل کتاب لکھنے کا تھا۔ بڑی تگ و دو کے بعد انکی زندگی اور ملک کیلئے انکی خدمات کے بارے میںمزید مدلل معلومات حاصل کیں ۔ آج خدا کے فضل و کرم سے اپنے اس مشن میں کامیاب ہوچکا ہوں۔ ملک برکت علی کے حوالے سے جو کچھ اس کتاب میں تحریر کیا جا چکا ہے وہ نہ صرف تاریخ کا حصہ بنے گا بلکہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے دل کی تمام کسک بھی مٹائے گا۔ کتاب میں انکی کچھ یادگار تصاویر اور انکے ہاتھ کی لکھی تحریروں کے عکس بھی شامل کئے گئے ہیں۔ ملک کی معروف شخصیات جناب عاشق حسین بٹالوی‘ جناب عرفان صدیقی‘ جناب مجیب الرحمن شامل اور جناب ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے اپنی قیمتی آراءسے کتاب کو چار چاند لگا دیئے‘ ملک برکت علی کے بارے میں انکی بیش قیمت آراءسرمایہ¿ افتخار ہیں۔ 245 صفحات پر مشتمل دیدہ زیب سرورق کے ساتھ اس کتاب کو بک کارنر شوروم‘ اقبال لائبریری روڈ جہلم نے شائع کیا ہے‘ جس کی قیمت 2000/- روپے ہے۔