پاکستانی نرسز اور خواتین ہیلتھ ورکرز پر الزامات کی بھرپور مذمت کرتے ہیں:محمد عمر
گوجرانوالہ کے ایک لوکل صحافی میاں تنویر ساحل نے کویت میں پیرامیڈیکل اسٹاف پر بے بنیاد الزام تراشی کی ۔سینئر صحافی کویت
کویت( سینئر صحافی ) کویت میں عرصہ 34 سال سے مقیم ہوں۔ میری خوش قسمتی کہ مجھے تدریس اور صحافت کے شعبوں میں کام کا موقعہ ملا۔ دیار غیر میں زندگی گذار کر جو میں نے دیکھا اور محسوس کیا وہ یہ کہ کویت مقیم ہر پاکستانی دل و جان سے سچا پاکستانی ہے۔
اور وہ پاکستان کیلئے سب کچھ قربان کر دینا چاہتا ہے خواہ وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہوں ان میں ایک شعبہ میڈیکل کا بھی ہے۔ کویت میں پاکستانی ڈاکٹرز نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی اور ملک کم از کم ایشیائی ملک کو حاصل نہیں۔
بدقسمتی سے ایک عرصہ سے کویت میں پاکستانی نرسز کی آمد کا سلسلہ بند تھا اور نرسز زیادہ تر ہمارے پڑوسی ملک سے ہی کویت آ رہی تھیں۔
پھر کرونا بحران کے دوران کویت کو ڈاکٹرز نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ضرورت پیش آئی تو پاکستانی سفارتخانہ کے تعاون سے پاکستان سے ڈاکٹرز نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو کویت حکومت اور عوام نے برملا اعتراف کیا کہ پاکستانی ڈاکٹرز نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف تو پیشہ وارانہ اعتبار سے دیگر ممالک سے بہت بہتر ہے تو انہوں نے مزید پاکستانی ڈاکٹرز نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ڈیمانڈ کی اور پاکستانی میڈیکل پروفیشنلز کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے اور اڑھائی ہزار سے زائد پاکستانی ہیلتھ پروفیشنلز کرونا بحران کے بعد کویت ا چکے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
جب پاکستانی ہیلتھ پروفیشنلز کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو پاکستان کے حریف ملک کے لوگوں کو بڑی پریشانی ہوئی انہوں نے اپنا مخصوص انداز اختیار کیا افسوس کی بات انہوں نے اس مرتبہ نشانہ پاکستانی خواتین ہیلتھ ورکرز کو بنایا جو انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔کویت میں جتنا احترام پاکستانی خواتین کو دیا جاتا ہے۔
پاکستانی خواتین کی شرم و حیا کے حوالہ سے مثال دی جاتی ہے پبلک مقامات پر بھی اگر منچلے کھڑے ہوں اور وہ دیکھ لیں کہ سامنے سے پاکستانی خواتین گذر رہی ہیں تو وہ آگے سے ہٹ جاتے ہیں۔ پاکستانی خواتین ٹیچرز ڈاکٹرز اور نرسز کا کویت میں جتنا احترام کیا جاتا ہے وہ ہر پاکستانی کیلئے اعزاز کی بات ہے۔
ان حالات میں چند مخصوص عناصر نے بیہودہ سازش کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا گیا۔ ان ہی دنوں گوجرانوالہ کے ایک لوکل صحافی میاں تنویر ساحل ایک نجی دورہ پر کویت آئے تو پاکستانی کمیونٹی کی کچھ معروف شخصیات نے مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی پذیرائی کی۔ کسی کو نہیں پتہ کہ اپنے مختصر قیام کے دوران وہ کن لوگوں سے ملے جنہوں نے ان کو بے بنیاد معلومات فراہم کیں ان کو چاہئے تھا کہ کویت میں موجود میڈیا کے جن لوگوں سے وہ مل رہے ہیں ان سے تصدیق کر لیں۔
انہوں نےاپنی معلومات کو یقین کا درجہ دے کر گوجرانوالہ میں ایک چینل پر پاکستانی نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف پر بے بنیاد الزامات لگانا شروع کر دئیے جس پر کویت میں مقیم پوری پاکستانی کمیونٹی کو دکھ پہنچا۔
میں اپنی طرف سے اور پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے میاں تنویرصاحل کے پاکستانی نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف پر الزامات کی پرزور مذمت کرتا ہوں اور پورے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ کویت میں کوئی پاکستانی نرس اور ہیلتھ ورکر کسی غير اخلاقی اسکینڈل میں ملوث نہیں ہے۔
کویت میں قانون بہت سخت ہے یہاں کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ، اگر خدانخواستہ ایسا کوئی کیس ہوتا تو کویت کی وزارت صحت پاکستانی سفارتخانہ سے رابطہ کر لیتی۔ اس لئے ہر پاکستانی سے التماس کرتا ہوں کہ ایسے بے بنیاد الزامات پر کان نہ دھریں اور میاں تنویر ساحل کو چاہئے کہ اپنے الزامات واپس لیں۔