چند روز پہلے ایک ایسا معاملہ ہوا جس نے میرے ذہن میں بہت سارے سوالات اٹھا دیئے۔۔ معاملہ زمین پر قبضہ کا تھا۔۔۔
چند اقلیتی خواتین نے ایک مسلم خاتون کے پلاٹ پر اپنی تعمیر کے دوران تجاوزکیا۔یعنی انھوں نے مسلم خاتون کی اراضی کا کچھ حصہ اپنے گھر کی تعمیر میں شامل کر لیا ۔لڑائی جھگڑا ھوا
بات تھانہ،کچہری اور عدالت تک جا پہنچی ۔
یہاں پر اقلیتی خواتین غلطی پر تھیں۔نہ وہ عدالتی احکامات مان رہی تھیں اور نہ ہی پولیس کے ساتھ تعاون کررہی تھیں۔واضح محسوس ھورہا تھا کہ انہیں کسی طاقتور شخصیت/ادارے کی سرپرستی حاصل ہے ۔
دیکھا جائے تو اقلیتی گروہ اپنے اوپر ھونے والی زیادتی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور عام طور پر ان کے حقوق کے لیے پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر بہت آواز اٹھتی ھے۔لیکن انہی میں سے کچھ لوگ مظلومیت کی آڑ میں ظلم و زیادتی کے مرتکب ھوجاتے ہیں۔وہ اس خود ساختہ زیادتی پر ڈرامہ سازی کرتے ہیں اور اس پر معاشرے کی ہمدردیاں بٹورتے ہیں ۔اور اس ساری صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلیک میل بھی کرتے ہیں۔
ایسے لوگ اقلیتی گروہ کے ھوں یا چاہے اکثریتی گروہ کے ،یہ اپنی پوری کمیونٹی کو بدنام کررہے ھوتے ہیں۔
جس کمیونٹی کا یہ حصہ ھوتے ہیں ان کے متعلق پھر دنیا کی رائے اور احساسات بدل جاتے ہیں۔
یہی اصل میں وہ کالی بھیڑیں ہیں جو اپنے غلط فعل سے اپنی کمیونٹی کو معاشرے میں بدنام کرتے ہیں۔اور اس پر دھبہ لگاتے ہیں۔
ایسی کمیونٹی پھر معاشرے کی مجموعی ھمدردی سے محروم ھوجاتی ھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں کو لگام دی جائے تاکہ پوری کمیونٹی کے مفادات کا تحفظ ھوسکے اور وہ بدنام ھونے سے بچ سکے۔
دوسری جانب آپ سب کے علم میں ہے کہ ہمارا تھانہ کلچر کیسا ہے۔۔!
رشوت اور سفارش کی بنیاد پر کیس کو کوئی بھی شکل دی جا سکتی ہے۔میری بات وہ لوگ بخوبی سمجھ جائیں گے جن کا تھانے اور پولیس سے کبھی واسطہ پڑا ہو گا۔
ویسے تو پولیس کا سسٹم اپڈیٹ ہوا ہے۔
آپ کے ساتھ کوئی بھی مسئلہ ہوجائے آپ 15 پر کال کریں اور اپنے مسئلہ کے ساتھ ساتھ علاقے کی حدود اور متعلقہ تھانے کا نام بتائیں۔ پھر اس متعلقہ تھانے سے گھنٹے دو گھنٹے بعد کال آئے گی کہ “جی فرمائیے مسئلہ کیا ہے ۔” حالانکہ 15 پر کال کرنے کے بعد 5 سے 10 منٹ تک ریسپانس کا حکم ہے۔
تھانے سے آنے والی کال پر مسئلہ سننے کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔
فرد تھک کر خود تھانے پہنچ جاتا ھے۔ تھانے میں پہنچ کر اس فرد کے پاس لکھی ہوئی درخواست ہو تو اس کا اندراج کر کے ایک رسید اسے تھما دی جاتی ہے کہ جس کے خلاف آپ نے درخواست دی ہے اس سے رابطہ کرکے آپ کو بلایا جائے گا ۔اس دوران ھفتوں گزر جاتے ہیں۔ زیادتی کرنے والے فرد کو جب پتہ چلتا ھے کہ اس کے خلاف تھانے میں درخواست آئی ھے تو وہ پولیس کو رشوت دینے اور سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کے باعث ٹال مٹول سے کام لیتا ھے اور پولیس درخواست گزار کو ہی ڈرا دھمکا درخواست کو نمٹا دیتی ھے۔
بظاہر پولیس دونوں فریقوں کو یہی تاثر دیتی ھے کہ وہ دونوں کے ساتھ ھے۔
جس فرد کے ساتھ زیادتی ھوئی ھوتی ھے وہ پولیس سے مایوس ھوکر یا پولیس کیس بننے کے بعد عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ وکیل کی فیس بھر کر عدالت میں چارہ جوئی کی درخواست کرتا ہے۔ عدالتوں میں کیسوں کی بھرمار کے باعث معاملہ چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھتا ہے ۔بندہ جتنا بھی سر پٹک لے ، آرڈر ملتے ملتے ھفتوں،مہینوں گزر جاتے ہیں
جو مسئلہ 15 پر کال کرنے کے بعد منٹوں/ گھنٹوں میں حل ہوسکتا تھا وہ طول پکڑ کر مہینوں/ سالوں پر چلا جاتا ہے۔
معاملہ پراپرٹی کا ہو تو تعمیرات مکمل ہو چکی ہوتی ہیں۔ لڑائی جھگڑے کا ہو تو جھگڑا مزید سنگین شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے۔ اور اگر قتل کا ہو تو بہت حد تک شواہد مٹ چکے ہوتے ہیں۔
ابھی کل ہی ایک صاحب کا موبائل فون، چوک پر چھیننے کی واردات ھوئی۔وہ بھاگے بھاگے سامنے کھڑی پولیس وین میں دو پولیس نوجوانوں کے پاس آئے اور کہا کہ ابھی ابھی موٹر سائیکل سواروں نے ان کا موبائل فون چھینا ھے۔اپ ان کے پیچھے جائیں،وہ زیادہ دور نہیں گئے ھوں گے۔مگر ان پولیس والوں نے ان صاحب سے کہا کہ آپ 15 پر کال کریں۔۔
۔یعنی فوری انصاف اور داد رسی کو تو بھول ہی جائیں آپ ۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں پولیس پہلے نمبر پر اور عدلیہ تیسرے نمبر پر کرپٹ ترین شعبہ ہے۔ یہاں پر صرف طاقتور طبقے کوانصاف مل رہا ہے اور صرف اسی طبقہ کی شنوائی ہوتی ہے ۔
راتوں رات عدالتوں کا کھل جانا ،عوام الناس کی آنکھیں کھول چکا ہے کہ اس اشرافیہ اور طاقت ور طبقے کو آ ؤ ٹ آف وے جاکر ان کی مرضی کا انصاف انہیں دیا جارہا ھے۔
رہ گئی پولیس تو جس فریق کا پلڑا بھاری ہو اثر و رسوخ زیادہ ہوتو پولیس اس کی باندی بن جا تی ہے۔ ایف آئی آر میں فریق مخالف پر ایسی ایسی پولیس کی جانب سے دفعات لگا دی جاتی ہیں جن کو بھگتتے بھگتتے سالہا سال لگ جاتے ہیں۔
رہ گئی غریب عوام تو اسے انصاف کی فراہمی صرف اسی صورت ممکن ہے کہ
اس کی رسائی کسی طاقتور شخصیت تک ہوجائے تو اس کی بات سنی جاتی ہے۔ بصورت دیگر انصاف اور اپنے بنیادی حق کے لیے اسے کہاں کہاں دھکے نہیں کھانے پڑتے۔
بروقت انصاف کی فراہمی صرف عدلیہ ہی کی نہیں بلکہ پولیس کی بھی ذمہ داری ہے، کیونکہ پولیس کی جانب سے داد رسی نہ ہونے کے باعث شہریوں کی بڑی تعداد عدالتوں کا رخ کرتی ہے جس کی وجہ سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا ہے۔ جبکہ پولیس اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بروقت چالان عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح گواہان اور فریقین کے غیر سنجیدہ رویے بھی بروقت انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی اپنی ذمہ داری درست طریقے سے نبھائیں تو نظام عدل بہت جلد ٹھیک ہو سکتا ہے کیونکہ انصاف کی بروقت فراہمی میں تاخیر بھی نا انصافی میں شامل ہے۔