کالم و مضامین/Articles

مجرمانہ خاموشی اور اُمت مسلمہ کے حکمران

تحریر۔ محمد فاروق عزمی

دنیا کے نقشے پر اگر کوئی خطہ ہے ، جہاں انسانیت روز کچلی جاتی ہے۔ جہاں بچے بھوک سے بلکتے ہیں۔ مائیں نڈھال ہیں ، روتی ہیں ، لاشیں اٹھاتی ہیں۔ باپ اور بھائی بے بسی کی تصویر بنے پھرتے ہیں، اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے تو وہ ہے غزہ ۔ سب سے درد ناک اور شرمناک خاموشی اُن کی ہے جنہیں بھائی کہا گیا ، امت کہا گیا ، عرب کہا گیا ۔

حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ” مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی ، کوفہ ایک شہر کا نام نہیں بلکہ خاموش امت کا نام ہے ، جہاں پر بھی ظلم ہو اور اُمت خاموش رہے وہ جگہ کوفہ اور لوگ کوفی ہیں “

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ” آپ مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم اور محبت والفت اور نرمی کرتے ہوئے دیکھیں گے کہ وہ اس ایک جسم کی مانند ہیں کہ جس کا ایک عضو تکلیف محسوس کرے تو مکمل جسم بخار اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ ” ( صحیح بخاری ، حدیث نمبر 5665 اور صحیح مسلم حدیث نمبر 2586) ۔ اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ” عرب امت” اس جسم سے کٹ چکی ہے ۔ ؟ کیا وہ غزہ کے بچوں کی چیخوں کو سننے کے قابل نہیں رہی ۔ کیا مسلم امہ کے کانوں میں بے حسی اور بے شرمی کا سیسہ پگھلا کر انڈیل دیا گیا ہے کہ اسے غزہ کی تڑپتی سسکتی ماؤں اور سفید بالوں والے بزرگوں کی آہیں اور سسکیاں سنائی نہیں دیتیں۔ یا اُمت کے دیدوں کا پانی مر گیا ہے کہ اسے ہر روز سیکٹروں کی تعداد میں مرتے معصوم اور بے گناہ بچے دکھائی نہیں دیتے۔

غزہ کی زمین کئی دہائیوں سے ظلم سہتی آئی ہے ۔ لیکن حالیہ سالوں میں جس وحشت اور بے دردی سے وہاں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں ۔ انسانی خون جس قدر ارزاں ہوا ہے؟ ظلم وستم کے جو بازار گرم کیے گئے ہیں ۔ یہ سب تاریخ کا المیہ بن چکا ہے۔ ہزاروں بے گناہ بچے ، پھول جیسے معصوم بچے ، عورتیں اور بوڑھے شہید ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں پر بمباری ، اسکولوں کی تباہی ، پناہ گزین کیمپوں پر گولہ باری ، پانی ، خوراک اور ادویات کی بندش، بجلی کا نہ ہونا ، یہ سب غزہ کے روزمرہ کی حقیقت بن چکی ہے ۔ غزہ لہو لہو ہے ، فریاد در فریاد کر رہا ہے۔ لیکن عرب دنیا خاموش ہے۔ اس خاموشی کو کیا نام دیا جائے۔ جرم ، بزدلی، بے بسی یا بے حسی ؟

جن عرب حکمرانوں کے پاس تیل کے خزانے ہیں، جو دنیا کے امیر ترین بادشاہ اور شہزادے کہلاتے ہیں۔ جن کے محلات ایکڑوں میں پھیلے ہوئے اور برقی قمقموں سے روشن ہیں۔ لیکن ان کے دل چھوٹے اور اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ غزہ کے بچوں کو خون میں نہاتے ہوئے دیکھ کر بھی ان بے شرموں کو شرم نہیں آتی ، جو اپنے اونٹوں کے لیے صحراؤں میں وسیع و عریضں خیموں کے اندر ائیرکنڈیشن لگوا کر ٹھنڈک پیدا کر لیتے ہیں۔ وہ غزہ کے پیاس سے بلکتے بچوں کے لیے پانی کی ایک بوتل بھیجنے کو تیار نہیں۔ جن کے دستر خوانوں کی لمبائی ماپنا محال اور چنے گئے انواع و اقسام کے کھانوں کی تعداد گننا ممکن نہیں وہ بھوک سے نڈھال فلسطین کی ماؤں اور بیٹیوں کو ایک لقمہ روٹی کا بھیجنے سے قاصر ہیں تو کیا ہے یہ مسلمان کہلانے کے لائق ہیں ۔ دنیا میں تقریریں اور کانفرنسیں کرتے عرب حکمران ، شاید ہیجڑوں سے بھی بدتر اور بزدل ہیں ۔ بعض عرب ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں ۔ کچھ نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے تلوے چاٹتے عرب حکمران اور شہزادے ننگِ قوم و ملت اور ننگِ انسانیت ہیں۔ محصور فلسطینیوں کے لیے بارڈر بند کر دیئے گئے، خوراک پانی اور ادویات کی ترسیل روک دی گئی ۔ زخمیوں کے علاج کے لیے بھی انہیں نکلنے نہیں دیا جاتا ، لیکن اُمت مسلمہ کے حکمران کسی بھی عملی اقدام کے لیے تیار نہیں ۔ فلسطینی مزاحمت کو ” انتہا پسندی ” کا نام دیا گیا اور ظالموں سے دوستی کر لی گئی ۔ عرب عوام تو شاید پھر بھی فلسطین کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔ کہیں کہیں مظاہرے بھی ہوتے ہیں ۔ فلسطین کے لیے دعائیں مانگتے اور آنسو بھی بہا لیتے ہیں لیکن جب بات آتی ہے مسلم ممالک کے حکمرانوں کی، تو انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں ۔ معاہدے یاد آ جاتے ہیں۔ تیل کی سیاست اور تخت و تاج کے تحفظ کی دیوار اُن کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے ۔ اپنی عیاشیاں اور عیش پرستی ان کے مہندی لگے پیروں کی زنجیر بن جاتی ہے ۔

اقوام متحدہ کی چھتری تلے انسانی حقوق کی باتیں زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ غزہ میں حالیہ ظلم وجبر، قتل و غارت ، نسل کشی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں ۔ غزہ میں جو حالات ہیں اس بارے عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی بڑی بڑی تنظیمیں بھی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اس خاموشی کی وجہ سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ ظلم و جبر کا شکار ہونے والے فلسطینی “مسلمان ” ہیں ۔

حضرت ثعبان رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث مبارکہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

” قریب ہے کہ اقوام عالم آپس میں ایک دوسرے کو تم پر ٹوٹ پڑنے کی دعوت دیں گے، جیسا کہ کھانا چننے کے بعد دستر خوان کی طرف بلایا جاتا ہے ” بین ہی یہی نقشہ آج کل امت مسلمہ کا ہے، جس پر اقوام عالم ایک دوسرے کو ٹوٹ پڑنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ایک سوال کرنے والے نے سوال کیا ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم تعداد میں اتنے کم ہوں گے کہ ہم اقوام عالم کے رحم و کرم پر ہوں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، بلکہ تمہاری تعداد بہت کثیر ہوگی لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے خس و خاشاک کی سی ہوگی ۔ اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دلوں میں جو تمہاری ہیبت ہے وہ نکال دے گا ۔

آج پورے عالم اسلام کی یہی کیفیت ہے ۔ دنیا جو چاہے ہمارے ساتھ سلوک کرتی رہے ہم مکمل طور پر بے حس اور بے بس ہو چکے ہیں ہماری غیرت اور حمیت ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی ، ٹیپو سلطان اور
محمد بن قاسم کوئی افسانوی کردار تھے ۔

تاریخ گواہ بنے گی ، کبھی نہ کبھی یہ سارا خون ، یہ بچوں کی چیخیں ، یہ ماؤں کے آنسو عرب حکمرانوں کے دامن کو بھی داغ دار کریں گے ۔ تاریخ کے اوراق انھیں غزہ کے مجرم کے طور پر یاد رکھیں گے ۔ وہ حکمران جو بول سکتے تھے ۔ کچھ کر سکتے تھے ۔ مگر خاموش
رہے ۔ تمہاری خاموشی ہی تم سے سوال کرے گی کہ اگر تمہارے بچے بھوکے اور زخمی ہوتے تو کیا تم تب بھی اتنے ہی خاموش رہتے ۔ اے عرب حکمرانو! ، غزہ کی ماؤں کی آہیں بچوں کی چیخیں اور بوڑھوں کی سسکیاں تمہیں معاف نہیں کریں گی ۔ تم فلسطین کے زیاد قریب تھے۔ تمہاری خاموشی بڑا جرم ہے ۔ تاریخ کا بدترین گناہ ہے ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button