ورلڈ کپ 2022: انڈین کرکٹ ٹیم کا غرور خاک میں مل گیا
کویت ( برجستہ نیوز محمد عمر ) پاکستانی ٹیم کو باہر کرنے کیلئے تمام حربے اختیار کئے مگر شاہین فائنل میں اور آئی پی ایل کے شیر،، عازم دہلی،، 20/20 ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ آسٹریلیا میں شروع ہوا تو دنیا نے دیکھا کہ آئی سی سی اور ایمپائرز انڈیا کو عالمی چیمپئن بنانے کیلئے ہر ممکن حربہ اختیار کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
سینئر انڈین کھلاڑی ویرات کوہلی ایمپائرز کو حکم دیتے نظر آتے رہے تھے اس سلسلہ میں کرکٹ کی کتابوں میں لکھے رولز بھی نظر انداز کر دئیے۔انڈین ٹیم کو چیمپئن بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستانی ٹیم نظر آرمی تھی اس لئے پاکستان انڈیا میچ کو ایک تماشا بنا دیا گیا۔
آخری اوور میں انڈین ٹیم کو جیتنے کیلئے 16 رنز درکار تھے، پاکستانی کپتان بابر اعظم کی علمی کہ وہ تیز باؤلرز شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور حارث روؤف سے پورے اوورز کرا چکے تھے ، انہوں نے آخری اوور اسپن باؤلر محمد نواز کو دیا، انہوں نے پہلی گیند پر وکٹ حاصل کر لی جس کے بعد 5 گیندوں پر 16 رنز رہ گئے۔
نواز کی اگلی گیند پر کوہلی نے چھکا لگا دیا اور ساتھ ہی ایمپائر کی طرف اشارہ کیا کہ گیند بہت اونچی تھی اس کو ،، نو بال،،قرار دیا جائے ، ایمپائر نے کوہلی کی بات پر زیادہ سے زیادہ تھرڈ ایمپائر کی طرف رجوع کرتے ۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی اگلی گیند جو کہ فری ہٹ تھی پر کوہلی بولڈ ہو گئے۔ بولڈ ہونے کی صورت میں گیند ،، ڈیڈ ،، ہو جاتی ہے جس پر رنز نہیں لئے جا سکتے مگر۔ایمپائر نے وہ رنز جائز قرار دے کر انڈین ٹیم کو فاتح قرار دے دیا۔
انڈیا جنوبی افریقہ میچ پر بھی غور کریں، جنوبی افریقہ کی شکست کی صورت میں پاکستانی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے امکانات روشن ہو جاتے ، اس روز انڈیا کے کھلاڑیوں نے کھلم کھلا میچ فکس کیا ۔ پہلے اسکور بہت کم کیا ، اس کے بعد فیلڈنگ میں آسان کیچز چھوڑے اور رن آؤٹ کے چار یقینی مواقع ضائع کئے۔
کوہلی ورلڈ کپ میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے اور ہر میچ میں تن من دھن دھڑ کی بازی لگا رہے تھے ، میچ فکسنگ کی پلاننگ میں بھی سب سے آگے تھے۔ انہوں نے آسان ترین کیچ چھوڑ دیا اور انڈین ٹیم جنوبی افریقہ سے ہار گئی۔
میدان اب صاف لگ رہا تھا ۔ 6 نومبر تاریخی دن واقع ہوا ، اس روز وہ ہوا جس کی کرکٹ مبصرین کو توقع بھی نہ تھی ۔ پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش کے خلاف آخری گروپ میچ کھیل رہی تھی، جیت کی صورت میں اس کے صرف 6 پوائنٹس ہوتے جبکہ جنوبی افریقہ کے پانچ پوائنٹس تھے اور وہ آخری گروپ میچ نیدر لینڈ کے ساتھ کھیل رہی تھی جو ٹورنامنٹ کی شب سے کمزور ٹیم تھی۔
نیدر لینڈ ٹیم ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک میں شامل نہیں ۔ جنوبی افریقہ اور نیدر لینڈ کا میچ ایک رسمی کارروائی سے زیادہ کچھ نہ تھا لیکن نیدر لینڈ نے جنوبی افریقہ کو ہرا کر سب کو حیران کر دیا۔ جنوبی افریقہ اس شکست کے بعد ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی ۔ پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچنے کیلئے بنگلہ دیش کو ہٹانا تھا۔
شاہین شاہ آفریدی کی شاندار پرفارمنس کے باعث بنگلہ دیشی کھلاڑی بڑا اسکور نہ کر سکے اور پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچ گئی۔ سیمی فائنل میں پاکستان ، انڈیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ پہنچی تھیں۔
انڈیا اور نیوزی اپنے اپنے گروپ میں سرفہرست رہی تھیں ۔ مبصرین کی پیش گوئیوں کے مطابق ان ہی ٹیموں کے درمیان فائنل کھیلا جانے والا تھا۔ پہلے سیمی فائنل میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو سات وکٹ سے ہرایا تو یہ بات یقینی نظر ا رہی تھی کہ 13 نومبر کا فائنل دو روایتی حریفوں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلا جائے گا۔
انڈیا ٹیم کو بڑا غرور تھا کہ وہ سیمی فائنل میں انگلینڈ کو بڑی آسانی سے ہرا دے گی لیکن 10 نومبر کو دنیائے کرکٹ نے غرور میں ڈوبی ہوئی ایک ٹیم کا غرور خاک میں ملتے دیکھا۔
15 اوورز تک انڈین ٹیم بمشکل 100 تک پہنچ سکی تھی مگر پانڈیا کی جارحانہ بیٹنگ کے باعث انڈین ٹیم نے آخری 5 اوورز میں 68 رنز بنا لئے تھے۔169 کا ھدف اتنا آسان بھی نہ تھا مگر انگلینڈ کے افتتاحی بلے بازوں ھیلز اور بٹلر نے جم کر انڈین باؤلرز کی ڈھٹائی کی اور ہر ہر وکٹ پر گراؤنڈ میں جشن منانے والے انڈین کھلاڑی ایک بھی وکٹ کیلئے ترستے رہے۔
انگلینڈ نے بغیر کسی نقصان کے 170 رنز 16 اوورز میں بنا کر انڈین کھلاڑیوں کو گھر واپسی کی راہ دکھا دی ۔ اس وقت ویرات کوہلی کی حالت خاص طور پر قابل دید تھی جو مخالف کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پر بڑا تمسخر اڑاتے نظر آتے رہے ہیں بے بسی اور غم کی تصویر بنے ہوئے تھے۔
وہ ایمپائرز کو حکم دے کر بات منواتے رہے مگر فائنل تک پھر بھی نہ پہنچ سکے۔ امسال انگلینڈ اور انڈیا کے درمیان کھیلا جانے والا ٹیسٹ یاد آگیا ۔ جب انگلینڈ کے تیسرے کھلاڑی رن آؤٹ ہو گئے تو کوہلی خوشی میں ہوش کھو بیٹھے اور ایسا رد عمل ظاہر کیا جو اس لیول کے کھلاڑی کے شایان شان تھا جس کے بعد انگلینڈ کی مزید کوئی وکٹ نہ گری اور 373 کا ھدف بھی حاصل ہو گیا۔ ورلڈ کپ میں شکست کے بعد شاید انڈین کھلاڑیوں کے غرور کا بت پاش پاش ہو جائے۔